Department of ...
Employment
Education
Help Depart
Medical
Ambulance Service
Activities
Marriage Bureau Management
SYED
TALIB ALI WELFARE TRUST
is distributing monthly ration/groceries,
household equipment, wheel chair etc. in special persons, orphaned
children and widows for last 7 year.
So please appeal to you, submit your donation in Trust Online Account No.: PK27 UNIL 0109 0002 3125 1213 | Title: MUHAMMAD ALI | Bank: UBL | Branch Code: 0395 | New Karachi | Pakistan.
اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
الف، لام، میم{۱} یہ وہ کتاب ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ گناہوں سے بچنے والے لوگوں کو ہدایت دیتی ہے {۲} جو ان دیکھے اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔ اور صلات کرتے (اللہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا کرتے اور عبادت کرتے) ہیں۔ اور اللہ کا دیا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں{۳} اور جو کلام (محمدؑ) تم پر اُترتا ہے اور جو تم سے پہلے (پیغمبروں پر توریت، زبور اور انجیل) اُترا تھااُس پر یقین رکھتے ہیں اور آخرت کے حساب پر یقین رکھتے ہیں{۴} انہی کو اپنے پالنے والے (اللہ)سے ہدایت ملے گی اور وہی (دنیا و آخرت میں) فلاح پائیں گے {۵} اور جو لوگ حق کا انکار کرنے والے ہیں اُن کے لئے برابر ہے تم سمجھائو یا نہیں سمجھائو۔ وہ ماننے والے نہیں{۶} اللہ نے اُن کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے۔ اُن کی آنکھوں پر پردے پڑے ہیں۔ اُن کے لئے سخت عذاب ہے{۷}ان میں بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور روزِ آخرت پر، مگر وہ ایمان والے نہیں ہیں{۸}وہ اللہ کو اور اہل ایمان کو دھوکہ دیتے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ خود (اپنے نفس) کو دھوکہ دیتے ہیں{۹}اُن کے دلوں میں روگ ہے تو اللہ اُن کا روگ (انکے اعمال کے سبب) بڑھائے گا اور اُن کو سخت عذاب دے گا کیونکہ یہ (سچ کو) جھٹلاتے ہیں{۱۰} اِن سے کہو کہ دنیا میں فساد مت پھیلائو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح (معاشرہ) کرنے والے ہیں{۱۱} مگر یہی فساد کرنے والے ہیں اور سمجھتے نہیں{۱۲} اِن سے کہا جائے کہ ایمان لے آئو جیسے دوسرے ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم گنواروں کی طرح ایمان لے آئیں۔ حالانکہ یہی گنوار ہیں اور نہیں جانتے{۱۳} یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے جیسے سرکشی، نافرمانی کرنے والوں میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اُن (اہل ایمان) سے تو محض دل لگی کرتے ہیں{۱۴} اللہ اِن سے دل لگی کرے گا۔ ابھی اِن کی شرارت کو ڈھیل دے رہا ہے تاکہ غافل پڑے رہیں{۱۵} یہ لوگ ہدایت کی جگہ گمراہی بیچتے ہیں تو ایسی تجارت میں کیا بھلائی ہوگی۔ یہ کبھی نہیں سدھریں گے{۱۶} اِن کی مثال اُن لوگوں جیسی ہے جنہوں نے اندھیری رات میں آگ جلائی کہ اس کی روشنی میں آس پاس دیکھیں اتنے میں اللہ وہ آگ بجھا دے اور اُن کو اندھیرے میں چھوڑ دے اب کچھ دکھائی نہیں دیتا{۱۷} گویا اندھے بہرے اور گونگے بیٹھے ہیں واپس بھی نہیں آسکتے{۱۸} یا پھر جیسے آسمان سے بارش ہو رہی ہو ہر طرف اندھیرا ہو اور اس میں بجلیاں چمکنے اور گرجنے لگیں تو ڈر کر کانوں میں انگلیاں دے لیں اور بجلی کی کڑک سے موت کا خوف طاری ہوجائے۔ اللہ نافرمانوں کو اسی طرح گھیرتا ہے{۱۹} کبھی بجلی کی چمک سے آنکھیں چوندھیا جائیں کبھی اُس کی روشنی میں آگے چل پڑیں اور اندھیرا ہوجائے تو رُک جائیں، اللہ چاہے تو اِن کی سنوائی اور بینائی ضائع کر دے۔ بلاشبہ اللہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے{۲۰} اے لوگو! اپنے پالنے والے(اللہ) کی بندگی قبول کرو جس نے تمہیں تخلیق کیا اور تمہارے بزرگوں کو بھی تخلیق کیا تھا شاید تم اُس کے عذاب سے ڈرنے لگو{۲۱} جس نے زمین کو تمہارا فرش بنایا اور آسمان کو چھت۔ وہ آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے پھل اور غلہ اگتا ہے جو تمہارا رزق ہے پس تم (یہ سب حقیقت) جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو (لِلّٰہِ اَندَادً) اللہ کا شریک، اللہ کا رفیق (یعنی اولیاء اور وسیلہ) مت بنائو{۲۲}جو کلام ہم اپنے بندے (محمدؑ) پر اُتارتے ہیں اِس میں تمہیں شک ہے تو ایسی کوئی سورت تم خود بنا لائو اور اللہ کے سوا جو تمہارے دستگیر (مددگار) ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو{۲۳}اور ایسا نہیں کرسکو جو یقینا نہیں کرسکو گے۔ تو اُس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ وہ حق کا انکار کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے{۲۴} اور ایمان لانے والوں اور اچھے کام کرنے والوں کو خوشخبری سنادو اُن کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے دریا بہتے ہوں گے۔ یہ لوگ اُن پھلوں کو کھائیں گے جو وہاں ملیں گے تو کہیں گے (متشابہا) یہ وہی ہیں جو ہم کھاتے تھے اور وہ ویسے ہی ہوں گے۔ وہاں اُن کو پاک بیویاں دی جائیں گی جو ہمیشہ ساتھ رہیں گی{۲۵} اور اللہ ایسی کہاوت سے نہیں شرماتا کہ مچھر ہے اور اس کی بڑائی کیا ہے۔ جو اہل ایمان ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس میں اللہ کی سچائی ہے مگر جو نافرمان ہیں پوچھیں گے اللہ اس مثال سے کیا چاہتا ہے۔ (کہو) یہ بہتوں کو بھٹکا دے گی اور بہتوں کو ہدایت دے گی اور بھٹکتے تو وہی ہیں جو گنہگار ہیں{۲۶} جو لوگ اللہ سے پکا عہد کرنے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں اور جن رشتوں کو جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے اُن کو توڑ ڈالتے ہیں اور ملک میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں وہ نقصان اُٹھانے والے لوگ ہیں{۲۷} لوگو! تم اللہ کے وجود سے انکار کیسے کرسکتے ہو۔ تم بے جان تھے (اُس نے) تم میں جان ڈالی، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، پھر زندہ کر کے اُٹھائے گا، پھر تم کو اُس کے سامنے حاضر ہونا ہے{۲۸} اُس نے دنیا کی تمام چیزیں تمہارے (یعنی انسانوں کے) لئے بنائی ہیں۔ وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور سات آسمان بنا ڈالے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے{۲۹} تمہارے پالنے والے (اللہ) نے فرشتوں سے کہا میں زمین پر اپنا خلیفہ(نائب) مقرر کرنا چاہتا ہوں۔ (فرشتے) بولے کیا ایسی مخلوق کو مقرر کرے گا جو وہاں فساد برپا کرے اور خون بہائے۔ ہم تیرے شکر کے ساتھ تیری پاکی و خوبیاں بیان کرتے ہیں۔ ہم نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے{۳۰} پھر ہم نے آدمؑ کو تمام چیزوں کے نام سکھا دئیے اور اُس کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا سچے ہو تو اِس طرح چیزوں کے نام بتائو{۳۱} (فرشتے) بولے تو پاک ہے۔ ہم تو اُتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے سکھایا ہے اور تو ہی سب کچھ جاننے والا ہے۔ تو ہی حکمت و دانائی کا مالک ہے{۳۲} اور ہم نے کہا اے آدمؑ! اِن کو اِن کے نام بتائو تو آدم نے اُن کو اُن کے نام بتا دئیے۔ (پھر اللہ نے کہا) میں نے کہا تھا کہ میں ہی آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہوں اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم چھپاتے یا ظاہر کرتے ہو{۳۳} پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ اکڑ گیا اور غرور میں آگیا اور نافرمانوں میں سے ہوگیا{۳۴} پھر ہم نے کہا اے آدمؑ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھائو پیو۔ مگر اُس درخت کے پاس نہیں جانا ورنہ تم بھی ظالموں (نافرمانوں) میں شمار ہوگے{۳۵} پھر سرکشی، نافرمانی کرنے والے نے اُن کو بہکا دیا اور جہاں وہ رہتے تھے وہاں سے نکلوا دیا۔ ہم نے کہا جائو تم ایک دوسرے کے دشمن رہوگے۔ تمہارا ٹھکانہ زمین ہے۔ وہاں معینہ مدت تک(جینااور) فائدہ اُٹھانا {۳۶} پھر آدم نے اپنے پالنے والے(اللہ) سے کچھ اور باتیں سیکھیں اور توبہ کرلی۔ بلاشبہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کھانے والا ہے{۳۷} اور ہم نے کہا تم سب یہاں سے جائو اور جب میری طرف سے کوئی ہدایت کرنے والا تمہارے پاس آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا اُسے کوئی خوف ہوگا نہ غم{۳۸} لیکن جو لوگ نافرمانی کریں گے اور ہماری باتوں (یعنی اللہ کی حدیثوں) کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جلیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے{۳۹} اے بنی اسرائیل! ہماری نوازشیں یاد کرو جو ہم نے تم پر کی تھیں اور مجھ سے ایفائے عہد کرو تو میں بھی اپنا عہد پورا کروں اور مجھ سے ڈرو{۴۰} جو ہدایت (قرآن) ہم بھیج رہے ہیں اس پر ایمان لائو۔ یہ تمہاری (آسمانی) کتاب کی جو تمہارے پاس ہے تصدیق کرتی ہے اور تم پہلے انکار کرنے والے نہیں بنو اور میرے کلام (باتوں) کو تھوڑے سے فائدے کیلئے نہیں بیچو میرا خوف کرو{۴۱} تم سچ کو جھوٹ کے ساتھ نہیں ملائو۔ نہ سچائی کو جان بوجھ کر چھپائو{۴۲} صلات کرتے رہو، زکوٰۃ دیتے رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو{۴۳} تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو حالانکہ اپنی کتاب پڑھتے ہو تو کیا سمجھتے نہیں{۴۴} اور تم محنت میں اور صلات میں (اللہ سے) مدد حاصل کرو کیونکہ یہ دشوار ضرور ہیں مگر اللہ کے عذاب سے ڈرنے والوں کیلئے ایسی دشوار نہیں{۴۵} جو یقین رکھتے ہیں اُنہیں اللہ سے ملنا ہے اور اُس کے سامنے جانا ہے{۴۶} اے بنی اسرائیل! ہماری مہربانیاں یاد کرو۔ ہم نے تم کو کیسی کیسی نعمتیں دی تھیں اور تم کو اہلِ عالم پر فضیلت دی تھی{۴۷} اور اُس دن (روزِ آخرت) سے ڈرو جب کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا اور نہ کسی کی سفارش چلے گی، نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے، نہ کوئی مدد کرسکے گا{۴۸} ہم نے تمہیں آلِ فرعون سے نجات دلائی جو تمہیں سخت عذاب میں ڈالے ہوئے تھے۔ وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور بیٹیوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اور اِس عذاب میں تمہارے پالنے والے(اللہ)کی طرف سے (سخت) آزمائش تھی{۴۹} پھر ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑا اور تمہیں بچالیا اور آلِ فرعون کو ڈُبا دیا اور (بنی اسرائیل) تم دیکھ رہے تھے{۵۰} پھر ہم نے جب موسیٰ کو وعدے کے مطابق چالیس راتوں کے لئے پہاڑ پر بلایا تو تم اُس کے پیچھے بچھڑے کو پوجنے لگے اور تم ظالم ہوگئے{۵۱}پھر بھی ہم نے تم کو معاف کر دیا کہ شاید احسان ماننے والے بن جائو{۵۲} ہم نے موسیٰ کو کتاب اور فرقان (کسوٹی) دی کہ شاید تم ہدایت یاب ہوجائو{۵۳} موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا بھائیو! بچھڑے کو پوج کر تم نے خود پر ظلم کیا ہے۔ اس لئے توبہ کرو اور اپنے نفس کو مار ڈالو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تمہارا خالق تمہارے قصور معاف کر دے۔ بلاشبہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے{۵۴} تو تم موسیٰ سے کہنے لگے ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک تمہارے پا لنے والے(اللہ) کو اپنے سامنے نہیں دیکھ لیں پس تم پر بجلی کڑکی اور تم دیکھتے رہ گئے{۵۵} اُس کے بعد ہم نے تم کو دوبارہ زندہ کیا کہ شاید احسان مانو{۵۶} ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ رکھا اور من و سلویٰ اُتارا کہ پاک چیزیں کھائو جو ہم دیتے ہیں اور ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود پر ظلم کرتے تھے{۵۷} پھر ہم نے کہا اس بستی میں داخل ہوجائو اور جو چاہو کھائو پیو مگر جب دروازے میں داخل ہونا تو سجدہ کرنا اور کہنا حِطتہٌ (بخش دے) تو ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور زیادہ احسانات کریں گے{۵۸} تو ظالموں نے وہ لفظ بدل دیا جو کہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور کچھ اور ہی کہنے لگے تو ہم نے اُن پر آسمان سے عذاب اُتارا کیونکہ وہ فاسق (بدکردار) و گنہگار لوگ تھے{۵۹} اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا۔ ہم نے کہا اپنے عصا کو پتھر پر مارو۔ اُس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور سب نے اپنے اپنے گھاٹ مقرر کرلئے۔ ہم نے کہا کھائو پیو اللہ کے دئیے ہوئے رزق سے اور زمین پر فساد کرتے مت پھرو{۶۰} تب کہنے لگے اے موسیٰ ہم ایک ہی کھانے پرتحمل نہیں کرسکتے۔ ہمارے لئے اپنے پالنے والے(اللہ)سے دُعا کرو کہ زمین سے اُگنے والی ترکاریاں، ککڑیاں، گیہوں، مسور اور پیاز بھی دے۔ موسیٰ نے کہا تم اچھی چیزیں چھوڑ کر معمولی چیزیں مانگتے ہو تو پھر مصر چلے جائو جو چاہو گے ملے گا۔ تو ہم نے اُن پر ذلت و بے چارگی ڈال دی اور وہ اللہ کے غضب میں آگئے اِس لئے کہ وہ اللہ کی باتوں (حدیثوں) کو جھٹلاتے تھے اور اپنے رسولوں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ نافرمانوں اور خودسروں کی یہی سزا ہے{۶۱} بلاشبہ ایمان لانے والے، خواہ یہودی، خواہ عیسائی، خواہ ستارہ پرست جو بھی اللہ پر اور اُس کے روزِ آخرت (حساب کے دن) پر ایمان لائے گا اور اچھے کام کرے گا اُس کو پالنے والے(اللہ)کے پاس اچھا اجر ملے گا۔ اُسے کوئی خوف ہوگا نہ غم{۶۲} جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تم کو طور پر اٹھا کھڑا کیا اور کہا کہ جو کتاب ہم دے رہے ہیں اسے مضبوطی سے تھامے رہنا اور جو لکھا ہے اسے پڑھتے رہنا اس سے تم گناہوں سے بچنے والے بن جائوں گے{۶۳} مگر تم اس کے بعد (عہد سے) پھر گئے (یعنی نافرمان ہوگئے) اگر اللہ کا فضل اور رحمت شامل حال نہیں ہوتی تو تم نقصان میں پڑجاتے{۶۴} اور تم اُن کو جانتے ہوگے جو تم میں سے ہفتے کے دن کی نافرمانی کرنے لگے تھے تو ہم نے اُن سے کہا جائو ذلیل بندر کی طرح (بے گھر بے وطن) ہوجائو{۶۵} اور اِس واقعہ کو ہم نے اُن کے اور اُن کے بعد آنے والوں اور اللہ (کے عذاب) سے ڈرنے والوں کے لئے ایک نصیحت بنا دیا{۶۶} پھر موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ حکم دیتا ہے کہ تم ایک بیل کاٹو۔ بولے تم ہم سے مذاق کرتے ہو۔ کہا میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ کیا میں جاہلوں میں سے ہوں{۶۷} بولے پھر اپنے پالنے والے(اللہ)سے پوچھ کر بتائو وہ کیسا ہو۔ کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ نہ زیادہ بوڑھا ہو نہ بالکل بچہ درمیانی ہو۔ پس کر ڈالو جو حکم ملا ہے{۶۸} بولے اپنے پالنے والے(اللہ)سے پوچھو اُس کا رنگ کیسا ہو۔ کہا اللہ فرماتا ہے ایک زرد بیل لو جس کا رنگ گہرا ہو جو نظروںکو بھائے{۶۹} تب بولے ایک چیز اور پوچھ آئو کہ کون سا بیل کاٹیں کیونکہ بیل تو (تشابہ) سب ایک جیسے ہیں (ان شاء اللّٰہ) اگر اللہ نے چاہا تو ہم سمجھ جائیں گے{۷۰} موسیٰ نے کہا اللہ فرماتا ہے وہ کام میں لگا ہوا نہیں ہو، نہ کھیتی میں جتا ہو، نہ رہٹ پر چلا ہو اور اُس میں کوئی نقص یا داغ نہیں ہو۔ بولے اب ہم کو سچ پہنچ گیا اور اُسے ذبح کیا مگر وہ ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے{۷۱} پھر (موسیٰ) تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا اور آپس میں جھگڑنے لگے تو اللہ نے وہ راز فاش کر دیا جو تم چھپا رہے تھے{۷۲} ہم نے حکم دیا اُس کے جسم پر کسی چیز سے ضرب لگائو تاکہ جان سکو کہ اللہ اِس طرح (مصنوعی تنفس کے ذریعہ)بھی مردوں کو جلا سکتا ہے۔ وہ اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم غور کرو اور سمجھو{۷۳} پھر اُس نے تمہارے دل سخت کر دئیے گویا وہ پتھر ہوگئے بلکہ پتھر سے زیادہ سخت ہوگئے کیونکہ بعض پتھروں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور اُن سے پانی نکلنے لگتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے اپنی جگہ سے کھسک جاتے ہیں اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے{۷۴} کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ (شرارتی) لوگ تم پر ایمان لے آئیں گے جبکہ ان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کا کلام سنے اور سمجھنے کے بعد اس میں جان بوجھ کر تحریف کرتے ہیں{۷۵} یہ ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان لے آئے ہیں اور جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں تم وہ باتیں اِن (رسول) کو نہیں بتانا جو اللہ نے تم کو بتائی ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ تمہارے پالنے والے(اللہ)کے سامنے اُن کو حجت نہیں بنا سکیں۔ کیا تم سمجھتے نہیں{۷۶} اور نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں اللہ سب جانتا ہے{۷۷} اِن میں بعض اَن پڑھ ہیں جو کتاب کو نہیں جانتے (کتابی علم نہیں رکھتے)۔ صرف سنی سنائی پر اکڑتے ہیں اور وہم و گمان سے کام لیتے ہیں{۷۸} اور اُن پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھ سے کتابیں لکھتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اللہ کے احکام ہیں۔ یہ تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے لئے ایسا کاروبار کرتے ہیں تو افسوس ہے اُن پر جو ایسی کتابیں لکھتے ہیں اور افسوس ہے اُن پر جو اُن سے کماتے ہیں{۷۹} اور (نافرمان لوگ) کہتے ہیں کہ ہم کو جہنم کی آگ چند دن سے زیادہ نہیں چھو سکتی۔ پوچھو کیا تم نے اللہ سے کوئی وعدہ لے رکھا ہے جو وہ وعدہ خلافی نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ اللہ سے ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو خود نہیں جانتے{۸۰} (اللہ کا قانون تو یہ ہے) جو برے کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کیلئے پکڑا جائے گا تو ایسے لوگ جہنم میں جائیں گے اور ہمیشہ اُس میں رہیں گے{۸۱} لیکن جو ایمان لے آئیں گے اور اچھے کام کریں گے وہ جنت کے حقدار ہوں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے{۸۲} اور ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو نہیں پوجیں گے۔ ماں باپ اور رشتے داروں، یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے اور لوگوں کو اچھی باتیں بتائیں گے، صلات قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے مگر تم اپنے وعدوں سے پھر گئے سوائے چند کے اور تم اعتراض کرنے والے ہی رہے{۸۳} ہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ تم آپس میں خونریزی نہیں کرو گے۔ اپنے لوگوں کو ملک سے نہیں نکالو گے اور تم نے اقرار کیا تھا اور تم گواہ بھی بنائے گئے تھے{۸۴} مگر تم اپنے لوگوں کو قتل کرتے ہو۔ بعض کو وطن سے نکال دیتے ہو۔ اُن پر ظلم اور عناد (کینہ) سے حملہ آور ہوتے ہو اور جب وہ گرفتار ہو کر آتے ہیں تو چھڑا لیتے ہو حالانکہ اُن کا نکالا جانا ہی تم پر حرام تھا۔ تم اپنی کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو تو ایسے لوگوں کی سزا اِس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں بھی رسوا ہوں اور قیامت کے دن سخت عذاب میں ڈالے جائیں۔ اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں ہے{۸۵} یہ وہ لوگ ہیں جو آخرت کے بدلے دنیا خریدتے ہیں پس اُن کا عذاب کم نہیں ہوگا اور کوئی اُن کی مدد کو نہیں آئے گا{۸۶} ہم نے موسیٰ کو کتاب دی۔ اُن کے بعد وقفے وقفے سے بنی بھیجتے رہے اور پھر ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو واضح دلیلیں عطا کی اور پاک فیض غیبی طاقت دی۔ مگر جو رسول بھی تمہارے پاس آیا تم نے اُسے پسند نہیں کیا اور غرور میں رہے بعض کو تم نے جھٹلایا اور بعض کو قتل کر دیا{۸۷} کہتے ہیں ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں۔ نہیں، بلکہ ان کے انکار کی وجہ سے ان پر اللہ کی لعنت ہے۔ اسی لئے اِن میں سے چند ہی ایمان لائے ہیں{۸۸} اور جب اِن کے پاس اللہ کی طرف سے ایسی کتاب آئی جو اِن کی (آسمانی) کتابوں کی تصدیق کرتی ہے تو وہی لوگ جو پہلے نافرمانوں پر غلبہ پانے کے لئے ایک ہادی کی دُعا کرتے تھے (تو اس ہادی کو) پہچان لینے کے بعد اُس کا انکار کرنے لگے تو ایسے منکروں پر اللہ کی لعنت ہے{۸۹} جس چیز کی خاطر انہوں نے اپنا ضمیر (ایمان) بیچا ہے وہ بری ہے یہ محض حسد کی وجہ سے اللہ کے کلام کا انکار کرتے ہیں مگر اللہ اپنا فضل اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اُتارتا ہے پس یہ اللہ کے غیظ و غضب کے مستحق ہیں۔ ایسے نافرمانوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے{۹۰} اِن سے کہو اللہ کی کتاب (قرآن) پر ایمان لے آئو جو اب اُتری ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اُسی پر ایمان رکھیں گے جو ہم پر اُتری تھی۔ اُس کے علاوہ ہم سب کتابوں کا انکار کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی سچی کتاب ہے اور اُن کی (آسمانی) کتاب کی تصدیق کرتی ہے۔ ان سے پوچھو اگر ایسے ہی صاحبِ ایمان تھے تو تم اللہ کے پچھلے رسولوں کو قتل کیوں کرتے رہے{۹۱} حتیٰ کہ جب موسیٰ اپنے معجزے اور کتاب لے کر آئے تو تم نے اُن کے پیچھے بچھڑا پوجنا شروع کر دیا اور تم ظالم قرار پائے{۹۲} اور جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا اور تم کو پہاڑ پر کھڑا کیا اور کہا ہم جو دیتے ہیں اسے سنبھال کر رکھنا اُس کوسننا (تعمیل کرنا)۔ تو کہا ہم سنیں گے مگر مانیں گے نہیں۔ یہ اِس لئے کہ نافرمانی کی وجہ سے بچھڑا اُن کے دلوں میں بسا ہوا تھا۔ اِن سے پوچھو کیا تمہارا ایمان صرف بری باتیں سکھاتا ہے۔ تم کیسے ایمان والے ہو؟{۹۳} کہو اگر آخرت کا گھر اللہ نے صرف تمہیں بخش دیا ہے اور دوسروں کا اُس میں دخل نہیں ہوگا تو ذرا موت کی تمنا کر کے دکھائو اگر سچے ہو{۹۴} مگر قیامت تک یہ اپنے برے اعمال کی وجہ سے ایسی آرزو نہیں کریں گے۔ اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے{۹۵}تم اِن کو دوسروں کے مقابلے میں زندگی کا زیادہ حریص (لالچی) پائو گے حتیٰ کہ مشرکوں (اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں) سے بھی زیادہ۔ اِن میں ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ ہزار سال جیئے مگر اتنی لمبی عمر مل بھی جائے تو یہ عذاب سے کیسے بچیں گے۔ جو کچھ یہ کرتے ہیں اللہ دیکھتا ہے{۹۶} کہہ دو جبرائیل کے دشمنوں سے کہ وہ تو تمہارے دل پر اللہ کے حکم سے قرآن اُتارتا ہے اور اُن کی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور مومنوں کو ہدایت و خوشخبری دیتا ہے{۹۷} جو لوگ اللہ اور اُس کے فرشتوں، اُس کے رسولوں اور جبرائیل و میکائیل کے دشمن ہیں اللہ ایسے نافرمانوں کا دشمن ہے{۹۸} اور ہم نے تم پر سلجھی ہوئی آیتیں (حدیثیں) اتاری ہیں انہیں فاسقوں (جھوٹوں) کے سوا کوئی جھٹلا نہیں سکے گا{۹۹} ان لوگوں سے تم جب عہد و پیماں کرتے ہو ان کا ایک فریق اسے قبول نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائیں گے{۱۰۰} حالانکہ اِن کے پاس اللہ کا رسول آیا ہے جو اُن کی (آسمانی) کتابوں کی تصدیق کرتا ہے مگر اہلِ کتاب کا ایک فرقہ اُسے اللہ کا کلام (حدیث) نہیں مانتا گویا اسے پہچانتا ہی نہیں{۱۰۱} اور اُس (جادو ٹونے) کے پیچھے لگ جاتا ہے جو سلیمان کے زمانے میں سرکشی، نافرمانی کرنے والے (کاہن و نجومی) پڑھا کرتے تھے۔ حالانکہ سلیمان نافرمان نہیں تھے۔ بلکہ سرکشی، نافرمانی کرنے والے ہی نافرمان تھے اور لوگوں کو جادو سکھاتے اور کہتے کہ یہ علم شہر بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر اُتارا تھا۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک وہ یہ نہیں جتلا دیتے کہ دراصل ہم ایک آزمائش و عذاب ہیں۔ تم اس نافرمانی (جادو) میں نہیں پڑو۔ غرض (یہ جتلانے کے بعد بھی) لوگ ایسا جادو سیکھتے ہیں جس سے میاں بیوی میں لڑائی کرا دیں یا جدائی ڈال دیں۔ مگر اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ پھر بھی یہ لوگ ایسی چیزیں (جادو ٹونا) سیکھتے ہیں جن میں نقصان کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔ اور جانتے ہیں کہ یہ علم (نجوم، رمل، جفر، فال) جو سیکھے گا اُسے آخرت میں کچھ نہیں ملے گا۔ پس جس چیز کے عوض یہ اپنی جانوں کو بیچتے ہیں وہ بری ہے۔ کاش یہ سمجھتے{۱۰۲} اگر یہ (یہودی) لوگ ایمان لے آئیں اور گناہ (شرک) سے بچنے والے بن جائیں تو اللہ اِن کو بہتر اجر دے گا۔ کاش یہ سمجھ سے کام لیں{۱۰۳} اے ایمان لانے والو! تم راعنا نہیں کہا کرو بلکہ انظرنا (ہمیں دیکھئے) اور اسمعوا (ہماری سنیئے) کہا کرو۔ نافرمانوں کو سخت عذاب ہوگا{۱۰۴} اہلِ کتاب میں جو نافرمان اور اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے ہیں پسند نہیں کرتے کہ اللہ کی طرف سے تم پر خیر و برکت نازل ہوتی رہے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اپنی مہربانی کیلئے چن لیتا ہے۔ اللہ بڑا فضل کرنے والا ہے{۱۰۵} ہم اپنی بعض آیتیں منسوخ کر دیتے ہیں یا تم سے بھلا دیتے ہیں تو اُن سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں۔ اور تم جانتے ہو اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے{۱۰۶} اور جان لو کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کی حکومت ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی (ولی) دوست و (نصیر) دستگیر نہیں ہے{۱۰۷} تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے ویسے ہی سوالات کرو جیسے موسیٰ سے کرتے رہے تھے تو جو ایمان چھوڑ کر نافرمانی اختیار کرے سمجھو وہ راستے سے بھٹک گیا{۱۰۸} اہلِ کتاب چاہتے ہیں کہ تم کو ایمان لانے کے بعد نافرمانی میں لوٹا دیں۔ یہ اُن کے دلوں کا حسد ہے حالانکہ اُن پر اِس دین (اسلام) کی سچائی ثابت ہوچکی ہے پس اُن کو معاف کر دو اور بھول جائو۔ جب تک اللہ اپنا نیا حکم بھیجے بلاشبہ اللہ ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے{۱۰۹} پس صلات قائم کرتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو تم جو بھلائی آگے بھیجو گے اُسے اللہ کے پاس پائو گے۔ بلاشبہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ دیکھتا ہے{۱۱۰} کہتے ہیں یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی جنت میں نہیں جائے گا یہ اُن کی خوش فہمی ہے کہو اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو{۱۱۱} حالانکہ جو بھی اللہ کے سامنے گردن جھکا دے (اللہ پر یقین رکھے) اور وہ نیک بھی ہو اُس کا اجر اُس کے پالنے والے(اللہ)کے پاس ملے گا۔ ایسے لوگوں کو کوئی خوف ہوگا نہ غم{۱۱۲} یہودی کہتے ہیں عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں ہے اور عیسائی کہتے ہیں یہود کچھ نہیں ہیں۔ حالانکہ وہ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو کچھ نہیں جانتے (مشرک) اِن دونوں کے بارے میں یہی کہتے ہیں۔ تو اللہ قیامت کے دن اِن کا فیصلہ کرے گا اور بتلائے گا کہ اصل اختلاف کیا تھا{۱۱۳} اور اِن سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کے سجدے کرنے سے روکتے ہیں۔ جہاں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اُسے تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ اُن کو یہاں ڈرتے ہوئے آنا چاہیے۔ اُن کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہوگا{۱۱۴} مشرق و مغرب تو اللہ کے ہیں تم جدھر رُخ کرلو اُدھر اللہ موجود ہوگا۔ بے شک اللہ کا علم بے حد وسیع ہے{۱۱۵} بعض لوگ کہتے ہیں اللہ نے ایک بیٹا حاصل کرلیا ہے۔ حالانکہ وہ (ایسے رشتوں سے) پاک ہے۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اسی کا ہے اور سب اسی کے محتاج ہیں{۱۱۶} اُسی نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ہے وہ کچھ کرنا چاہتا ہے تو کُن (ہوجا) کہہ دیتا ہے اور وہ ہوجاتا ہے{۱۱۷} نادان لوگ کہتے ہیں اللہ ہم سے باتیں کیوں نہیں کرتا اور ہم کو کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نہیں دکھاتا۔ یہی بات ان کے اگلے بھی کہا کرتے تھے اِن لوگوں کے دل (تشابہت) یکساں ہیں۔ ہم اپنا کلام یقین رکھنے والوں کو خوب سمجھا دیتے ہیں{۱۱۸} بلاشبہ (اے محمدؑ) ہم نے تمہیں سچائی کے ساتھ اہلِ عالم کوخوشخبری سنانے اور اللہ کے عذاب سے ڈرانے کیلئے بھیجا ہے اور جہنمی لوگوں کے بارے میں تم سے نہیں پوچھا جائے گا{۱۱۹} تم سے نہ یہودی خوش ہوں گے نہ عیسائی جب تک تم اُن میں شامل نہیںہوجائو۔ اُن سے کہو اللہ کی ہدایت (قرآن) ہی اصل ہدایت ہے اور تم (قرآنی) ہدایت پانے کے بعد اُن کو خوش رکھنے کی کوشش کرو گے تو پھر اللہ سے بچانے والا کوئی ولی (دوست)اور دستگیر (مددگار) نہیں ملے گا{۱۲۰} جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے اُن میں بعض اُس کو پڑھنے کا حق ادا کرتے ہیں۔ وہی اس قرآن کو بھی مانتے ہیں۔ اور جو قرآن کو نہیں مانیں گے وہ نقصان اُٹھانے والے لوگ ہوں گے{۱۲۱} اے بنی اسرائیل میرے احسانات یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے۔ ہم نے تمہیں اہلِ عالم پر فضیلت دی تھی{۱۲۲} اور اُس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا نہ کسی سے کوئی بدلہ قبول کیا جائے گا نہ کسی کی سفارش کام آئے گی اور نہ کوئی مددگار ہوگا{۱۲۳} اور ابراہیم کو بھی اُس کے پالنے والے(اللہ)نے چند باتوں میں آزمایا جب وہ آزمائش (امتحان) میں پورے اُترے۔ ہم نے کہا میں تم کو بنی نوع انسان کا امام (پیشوا) بناتا ہوں۔ پوچھنے لگے اور میری اولاد کو۔ تو ہم نے کہا ہمارا وعدہ ظالموں کے لئے نہیں ہے{۱۲۴} اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے اور امن کی جگہ بنایا اور (حکم دیا) ابراہیم اس جگہ عبادت گاہ بنائو۔ اور (ہماری طرف سے) ابراہیم اور اسمٰعیل نے لوگوں سے عہد لیا کہ وہ اس پاک گھر کے مجاور بنیں اور طواف کریں اور رکوع و سجود کریں{۱۲۵} ابراہیم نے کہا اے پالنے والے (اللہ) اس ایمان والے شہر کے جو رہنے والے ہیں اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان لائیں، ان کو اِس کے پھل کھلانا (فوائد دینا)۔ ہم نے کہا ہاں جو نافرمانی بھی کرے گا اُسے چند دن فائدے اُٹھانے دوں گا پھر اُسے عذابِ جہنم میں ڈال دوں گا اور وہ بری جگہ ہے{۱۲۶} اور جب ابراہیم و اسمٰعیل اس کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے تو کہتے تھے اے پالنے والے (اللہ) ہم سے ہماری خدمت قبول فرما۔ تو بڑا سننے اور جاننے والا ہے{۱۲۷} اے پالنے والے(اللہ)! ہم کو اپنا فرمانبردار رکھنا اور ہماری اولاد کو ایسی اُمت بنانا جو تیری اطاعت گزار اور فرمانبردار ہو اور ہم کو اپنی بندگی کے طریقے سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ تُو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے{۱۲۸} اور اے مالک ان میں ایک رسول بھیجنا جو تیرا کلام (تیری حدیث) پڑھ کر سنائے اور اُن کو کتاب و حکمت کی باتیں سکھائے۔ اُن کو پاک صاف بنائے۔ بلاشبہ تو ہی عزت و حکمت کا مالک ہے{۱۲۹} پھر ابراہیم کے عقائد سے کون انکار کرسکتا ہے سوائے بے ضمیروں کے۔ ہم نے (ابراہیم کو) دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیک لوگوں کے ساتھ ہوگا{۱۳۰} اُس کے پالنے والے(اللہ)نے اُس سے کہا (اَسْلِمْ) میری بندگی تسلیم کرو (یعنی اسلام قبول کرو) تو اُس نے کہا میں تمام جہانوں کے پالنے والے (اللہ) کی (اَسْلَمْتُ) بندگی تسلیم کرتا ہوں (اسلام قبول کرتا ہوں){۱۳۱} اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں اور یعقوب (پوتے) کو وصیت کی کہ اے بیٹو بلاشبہ اللہ نے تمہارے لئے یہی ’’اسلام‘‘ کا دین چنا ہے پس جب مرو تو مسلمان(اللہ کے فرمانبردار) ہی مرنا{۱۳۲} اور جب یعقوب کو موت آئی تو تم وہاں موجود نہیں تھے۔ وہ اپنے بیٹوں سے پوچھنے لگے میرے بعد کس کی بندگی کرو گے۔ بولے ہم آپ کے اور آپ کے باپ دادا ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق کے پالنے والے(اللہ) کی بندگی کریں گے جو ایک معبود ہے۔ اور ہم اسی کی فرمانبرداری کرتے ہیں{۱۳۳} مگر وہ ایک اُمت تھی جو گزر گئی اُس کے لئے وہ ہے جو اُس نے کمایا اور تم کو تمہارے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ تم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے{۱۳۴} تم سے کہتے ہیں کہ تم یہودی یا عیسائی ہوجائو تو راہِ راست پر آجائو گے۔ اِن سے کہہ دو ہم نے ابراہیم کی طرح ایک (اللہ کے آگے سر جھکانے والا) مذہب اختیار کرلیا ہے۔ وہ مشرک (اللہ کا بیٹا اور وسیلہ بنانے والے) نہیں تھے{۱۳۵} اُن سے کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس کتاب پر جو ہم پر اتری ہے اور اُن صحیفوں پر بھی جو ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق و یعقوب اور اس کے نواسوں پر اُترے اور جو کتابیں موسیٰ اور عیسیٰ کو دی گئی تھیں اور اُن پر بھی جو دوسرے رسولوں کو اُن کے پالنے والے(اللہ) کی طرف سے ملی تھیں ایمان رکھتے ہیں۔ ہم ان میں فرق نہیں کرتے۔ اور ہم صرف مسلمین (اللہ کے فرمانبردار) ہیں{۱۳۶} اگر یہ لوگ بھی ایمان لے آئیں جیسے تم لائے ہو تو ہدایت پا جائیں اور نہ مانیں تو سمجھو اُن سے جدائی ہے۔ ان سے مقابلے کے لئے تمہارے لئے اللہ کافی ہے اور وہ بڑا سننے اور جاننے والا ہے{۱۳۷} (کہہ دو ہم نے) اللہ کا رنگ اختیار کرلیا ہے اور اللہ سے بہتر کس کا رنگ ہے۔ ہم اُسی کی بندگی کرتے ہیں{۱۳۸} اُن سے کہو تم اللہ کے بارے میں ہم سے کیوں جھگڑتے ہو۔ وہ ہمارا اور تمہارا پالنے والا ہے اور ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں۔ تمہارے اعمال تمہارے لئے۔ اور ہم تو صرف اُسی کی بندگی کرتے ہیں (شرک سے) خالص کرکے {۱۳۹} تم سمجھتے ہو کہ ابراہیم و اسمٰعیل و یعقوب اور اُن کے نواسے یہودی یا عیسائی تھے۔ کہو کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ۔ اس سے بڑھ کر ظالم (جاہل) کون ہوگا جو اللہ کی شہادت کو اپنی کتابوں میں چھپائے۔ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے{۱۴۰} وہ ایک امت تھی جو گزر گئی انہوں نے جو کمایا اُن کو ملے گا اور تم کو تمہاری کمائی ملے گی اور تم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے{۱۴۱} نادان لوگ کہتے ہیں مسلمان جس قبلے پر پہلے تھے اس سے کیوں منہ موڑنا پڑا۔ اُن سے کہو مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں وہ جو بھی ہدایت چاہتا ہے دیتاہے{۱۴۲} ہم نے تم کو ایک درمیانی اُمت بنایا ہے تاکہ تم ساری انسانیت پر گواہ (شہید) بنو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔ اور وہ قبلہ جس پر تم پہلے تھے اس لئے تھا کہ ہم معلوم کریں کون ہمارے رسول کے ساتھ ہے اور کون اُلٹے پائوں واپس جاتا ہے۔ یہ چیز یقینا گراں ہے مگر اُن کے لئے نہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے۔ اور اللہ تمہارا ایمان ضائع نہیں کرے گا۔ اللہ انسانوں پر بے حد مہربان اور رحیم ہے{۱۴۳} ہم تمہارا آسمان کی طرف دیکھنا دیکھ رہے تھے تو ہم نے تم کو تمہاری پسند کا قبلہ دے دیا۔ اب مسجد حرم کے شطرے کی طرف منہ کرو۔ تم جہاں بھی ہو اپنا منہ شطرۂ حرم (مرکز) کی طرف رکھو۔ اہلِ کتاب کو بھی معلوم ہے کہ اُن کے پالنے والے(اللہ)کے پاس یہی بہتر ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے{۱۴۴} تم اہلِ کتاب کے پاس کتنی ہی نشانیاں (معجزے) لے کر جائو وہ تمہارا قبلہ قبول نہیں کریں گے پس تم بھی اُن کے قبلے کو قبول نہیں کرو بلکہ وہ خود بھی ایک دوسرے کے قبلے کو نہیں مانتے۔ یہ سب جاننے کے بعد بھی اُن کی خواہش مان لو گے تو یقینا تم بھی ظالموں (جاہلوں) میں شمار ہوگے{۱۴۵} جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی تھی وہ اُسے (یعنی کعبہ کو) اُسی طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں مگر اِن کا ایک گروہ (یہودی) جان بوجھ کر حقیقت کو چھپاتا ہے{۱۴۶} یہ حقیقت تمہیں اللہ بتا رہا ہے پس تم کسی شک و شبہ میں نہیں پڑو{۱۴۷} ہر اُمت کا ایک مرکز ہوتا ہے اور وہ اُسی کی طرف جھکتی ہے پس تم بھلائیوں کی طرف بڑھو۔ اس طرح تم جہاں بھی ہوگے اللہ تمہیں ایک مرکز پر جمع کر دے گا۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے{۱۴۸} (اے مسلمانو!) تم جہاں بھی جائو اپنا منہ مسجد حرم کے شطرے (مرکز) کی طرف پھیر لیا کرو۔ بیشک یہ تمہارے پالنے والے(اللہ)کا سچا حکم ہے۔ اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے{۱۴۹} یعنی تم جہاں بھی رہو اپنا رخ مسجد حرم کے شطرے کی طرف کرلیا کرو اور جہاں تک ہوسکے اپنے مرکز کا دھیان رکھو۔ پھر دوسری قوموں کو تم سے حجت کی ضرورت نہیں ہوگی سوائے ظالموں کے۔ تو اُن سے نہیں ڈرو۔ صرف مجھ سے ڈرتے رہو تاکہ میں تم پر اپنے احسانات پورے کروں اور تم ہدایت یاب ہوجائو{۱۵۰} (اور احسانات کی طرح) ہم نے تم میں تمہارا جیسا ایک رسول بھیجا ہے جو تم کو ہماری باتیں سناتا ہے اور تمہارا نفس (ضمیر) پاک کرتا ہے تم کو کتاب پڑھاتا ہے اور حکمت کی باتیں سکھاتا ہے یعنی ایسی باتیں جو تم پہلے نہیں جانتے تھے{۱۵۱} پس مجھے یاد کرتے رہو تاکہ میں تمہیں یاد رکھوں اور میرا احسان مانتے رہو اور ناشکری نہیں کرنا{۱۵۲} اے ایمان لانے والو! محنت میں اور صلات میں (اللہ سے) مدد حاصل کرو بیشک اللہ محنت کرنے والوں کے ساتھ ہے{۱۵۳} جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُن کو مردہ نہیں کہو۔ وہ زندہ ہیں مگر تم نہیں جانتے{۱۵۴} اور تم کو بھی تھوڑے خوف، بھوک اور مال کے نقصان اور پھلوں کی قلت سے آزمایا جائے گا۔ تو ثابت قدم رہنے والوں کو خوشخبری دیدو کہ{۱۵۵} جو لوگ مصیبت کے وقت جب آپڑے تو کہیں ہم اللہ کے (بندے) ہیں اور اُسی سے رجوع کرتے ہیں (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن){۱۵۶}اُن پر ان کے پالنے والے(اللہ)کی طرف سے (صَلَوٰت) شاباشی اور (رَحْمَت) مہربانی ہوتی رہے گی اور وہی ہدایت یاب لوگ ہیں{۱۵۷} بے شک صفا و مروہ بھی شعائر اللہ (قابلِ احترام) ہیں۔ پس جو حج یا عمرہ کرے تو کوئی گناہ (حرج) نہیں اگر اُن کا بھی طواف کرلے۔ جو کوئی بھلا کام کرتا ہے اللہ اس کی قدر کرتا ہے اور وہ بڑا قدرشناس ہے{۱۵۸} جو لوگ ہمارے اتارے ہوئے احکام کو چھپائیں گے حالانکہ وہ قرآن میں لکھے ہوئے ہیں اور لوگوں کو معلوم ہوچکے ہیں اُن پر اللہ کی لعنت ہوگی اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کریں گے{۱۵۹} لیکن جو توبہ کرلیں گے اور اپنی حالت سدھار لیں گے اور ہمارے کلام کا صحیح مطلب بتانے لگیں گے تو میں اُن کا قصور معاف کردوں گا۔ میں بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہوں{۱۶۰} جو لوگ نافرمان ہوجائیں اور نافرمان ہی مریں۔ ایسوں پر اللہ کی اور فرشتوں کی تمام لوگوں کی لعنت ہوگی{۱۶۱} اور وہ اُسی میں ہمیشہ رہیں گے نہ اُن کا عذاب کم ہوگا نہ مہلت ملے گی{۱۶۲} اور تمہارا مالک تو وہی ایک (اللہ) ہے اُس کے سوا کوئی مولا (مولیٰ) نہیں اور وہ بڑا دیالو اور رحم کھانے والا ہے{۱۶۳} بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں رات اور دن کے بدلنے میں اور کشتیوں میں جو سمندروں میں چلتی ہیں جن میں انسان کے لئے فائدے ہیں اور پانی جو آسمان سے برستا ہے جس سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اور زمین پر بسنے والے جانوروں میں اور ہوائوں کے چلنے میںا ور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں ان میں عقلمندوں کیلئے قدرت کی نشانیاں ہیں{۱۶۴} اور انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسرے داتا بنالیتے ہیں اور اُن سے اللہ کی سی محبت کرتے ہیں۔ مگر جو لوگ ایمان لے آتے ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ کوئی اِن ظالموں (جاہلوں) کو دیکھے جب روزِ حساب یہ عذاب دیکھ کر جان جائیں گے کہ قوت اور قدرت تو صرف اللہ کو حاصل ہے اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے{۱۶۵} اِن کے تمام پیشوا اُس دن اپنے پیروئوں اور پوجنے والوں سے بیزار ہوں گے اور عذاب دیکھ کر ایک دوسرے سے لاتعلق ہوجائیں گے{۱۶۶} اُس وقت اُن کو پوجنے والے کہیں گے کاش ہم کو دنیا میں واپس بھیجا جائے۔ تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزار ہیں ہم بھی اُن سے بیزار ہوجائیں گے۔ اِس طرح اللہ اُن کے اعمال کو حسرت ناک بنا دے گا اور وہ آگ سے نہیں نکل سکیں گے{۱۶۷} اے لوگو! جو چیزیں دنیا میں حلال اور پاک ہیں وہ کھائو اور پیو اور سرکشی، نافرمانی کرنے والے کے نقشِ قدم پر نہیں چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے{۱۶۸} وہ تم کو بدی اور بدکاری کا حکم دیتا ہے اور اللہ کے بارے میں ایسی باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے{۱۶۹} اِن سے کہو اللہ نے جو کتاب اتاری ہے اُس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں ہم اپنے باپ دادا کے عقیدے، فرقے اور مذہب کی پیروی کریں گے۔ خواہ ان کے باپ دادا کم عقل اور بے ہدایت ہی کیوں نہ ہوں{۱۷۰} نافرمانوں کی مثال بکری کے بچے کی سی ہے کہ کوئی سنے نہ سنے ممیائیں (پکاریں) گے۔ اسی طرح یہ بھی اپنے گونگے بہرے اندھے پیشوائوں کو پکارتے رہتے ہیں کہ بے عقل لوگ ہیں{۱۷۱} اے ایمان لانے والو! ہماری دی ہوئی پاک روزی کھائو اور ہمارا احسان مانو اگر ہماری بندگی مقصود ہے{۱۷۲} ہم نے تم پر صرف یہ چیزیں حرام کی ہیں۔ مرا ہوا جانور اور خون اور سور کا گوشت اور جو جانور اللہ کے سوا کسی اور کے نام سے ذبح کیا جائے ہاں بھوک سے نڈھال ہوکر کھالو یعنی نافرمانی یا عادت کی بناء پر نہیں تو کوئی گناہ نہیں۔ اللہ بخشنے والا رحیم ہے{۱۷۳} جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے احکام چھپائیں گے اور انہیں تھوڑے سے فائدے کے لئے بیچیں گے وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھریں گے۔ قیامت کے دن اللہ اُن سے بات نہیں کرے گا اور نہ اُن کو پاک کرے گا۔ اُن کو سخت عذاب دے گا{۱۷۴} یہ لوگ ہدایت کے بدلے گمراہی اور مغفرت کے بدلے عذاب بیچتے ہیں۔ تو کیا یہ جہنم کی آگ برداشت کرلیں گے{۱۷۵} اللہ نے اپنی کتاب سچائیوں کے ساتھ اُتاری ہے۔ جو اِس کتاب میں اختلاف ڈالتے ہیں وہ دشمنی و ضد میں (آ کر نیکی) سے دور ہوگئے{۱۷۶} نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کرلو یا مغرب کی طرف، نیکی یہ ہے کہ اللہ اور روزِ آخرت پر، فرشتوں پر، اللہ کی کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اپنا مال اللہ کی خوشنودی کے لئے رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں۔ غلاموں کو آزاد کرائیں، صلات قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور جب عہد کریں تو اُسے پورا کریں۔ تنگی ترشی اور جنگ میں ثابت قدم رہیں۔ وہی سچے مومن (ایمان والے) ہیں اور وہی گناہوں سے بچنے والے ہیں{۱۷۷} اے ایمان لانے والو! تم پر قتل کا قصاص فرض کیا جاتا ہے۔ آزاد سے آزاد کا، غلام سے غلام اور عورت سے عورت کا یعنی قاتل کو قتل کر ڈالا جائے خواہ کوئی ہو۔ پھر اگر کوئی اپنے بھائی کو معاف کرنا چاہے تو معروف طریقے پر (دستور کے مطابق) خون بہا (خون کی قیمت) لے لے اور دینے والا خوش دلی سے ادا کر دے۔ یہ رعایت تمہارے پالنے والے(اللہ)کا ایک احسان ہے۔ اس کے بعد جو زیادتی کرے گا اُسے سخت عذاب ہوگا{۱۷۸} اور یاد رکھو قصاص میں زندگی (کی ضمانت) ہے۔ اے ہوشمند و! اس سے تم زیادہ گناہوں (قتل و خونریزی) سے بچنے والے بن جائو گے{۱۷۹} اور یہ بھی فرض کیا جاتا ہے کہ جب کسی پر موت کا وقت آجائے اور وہ ترکہ چھوڑ رہا ہو تو والدین، رشتہ داروں اور بیوی بچوں کیلئے وصیت کرجائے جیسا کہ رواج ہے۔ اور اہلِ تقویٰ کا یہی حق (فرض) ہے{۱۸۰} پھر اگر وصیت سننے کے بعد کوئی بدل دے تو اس کا گناہ اُن پر ہے جو بدلیں گے۔ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے{۱۸۱} اگر اندیشہ ہو کہ مرنے والے نے طرفداری یا حق تلفی کی ہے تو وارثوں میں سمجھوتہ کرانے کے لئے رد و بدل میں گناہ نہیں۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا رحیم ہے{۱۸۲} اے ایمان لانے والو! تم پر روزے فرض کئے جاتے ہیں جیسے تم سے پہلے اُمتوں پر فرض تھے تاکہ تم گناہوں سے بچنے والے بن جائو{۱۸۳} یہ گنتی کے دن ہیں۔ تو جو بیمار ہوں یا سفر میں ہوں وہ بعد میں گنتی پوری کرلیں۔ اور جن میں (روزہ رکھنے کی) طاقت نہیں ہو وہ مسکین کو کھانا کھلا کر فدیہ دیں۔ لیکن جو نیک راہ اختیار کرے وہ زیادہ بہتر ہے اور سمجھو تو روزہ رکھنا اچھا ہے{۱۸۴} اور رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا ہے جو ساری انسانیت کے لئے ہدایت ہے اس میں کھرے اور کھوٹے کی جانچ کرنے والی اور زندگی سدھارنے والی باتیں ہیں۔ پس جو اِس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے لیکن جو بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ بعد کو گنتی پوری کرلے۔ اللہ تمہارے لئے آسانیاں چاہتا ہے دشواریاں نہیں چاہتا۔ اور جب روزے پورے کرلو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اللہ نے تمہیں توفیق دی اور اُس کا احسان مانو{۱۸۵}اور تم سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھتے ہیں۔ (اِن سے کہو) کہ میں اُن کے قریب ہوں۔ میں ہر پکارنے والے کی دُعا قبول کرتا ہوں۔ وہ میرے احکام مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تو سیدھی راہ پائیں گے{۱۸۶} اور رمضان کی راتوں میں مباشرت حلال کی جاتی ہے کہ تم اُن کا پردہ ہو اور وہ تمہاری پردہ پوشی کرنے والی ہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ تم اِس معاملے میں خیانت کر سکتے تھے اِس لئے اُس نے معاف کر دیا اور بخش دیا پس ان کے ساتھ رہو۔ اور اللہ نے جو کچھ تمہاری تقدیر میں لکھا ہے طلب کرو (اولاد)۔ اور کھاتے پیتے رہو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر نہیں آئے۔ پھر روزہ رکھ کر رات تک پورا کرو۔ البتہ جب مسجدوں کے گرد جمع ہو تو مباشرت نہیں کرنا۔ یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے آگے نہیں جانا۔ اللہ اپنے احکام اسی طرح سمجھاتا ہے تاکہ تم گناہوں سے بچنے والے بن جائو{۱۸۷} اور دیکھو ایک دوسرے کا مال ناحق نہیں کھانا۔ نہ اُسے حاکموں کے پاس پہنچانا (رشوت) کہ کسی سے جان بوجھ کر ناجائز طریقے سے مالی فائدہ اُٹھائو{۱۸۸} (اے محمدؑ) تم سے نئے چاند (ہلال) کے بارے میں پوچھتے ہیں کہو یہ وقت ناپنے کا پیمانہ ہے اور حج کا وقت بھی بتاتا ہے۔ اور نیکی اس میں نہیں کہ گھروں میں پیچھے سے جائو نیکی اللہ کے عذاب سے ڈرنے میں ہے۔ تم گھروں میں اُن کے دروازوں سے جایا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو وہ تم کو خوشحال کر دے گا{۱۸۹} اور تم اللہ کی راہ میں (دین کی خاطر) اُن سے جنگ کرسکتے ہو جو تم سے جنگ کریں مگر زیادتی نہیں کرنا۔ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا{۱۹۰} پس ان سے لڑو جہاں پائو۔ اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا تھا تم ان کو وہاں سے نکال دو۔ کیونکہ فتنہ قتل سے زیادہ خطرناک ہے۔ مگر مسجدِ حرم میں نہیں لڑنا جب تک وہ خود نہیں لڑیں ہاں وہ لڑیں تو تم بھی لڑو۔ نافرمانوں کی یہی سزا ہے{۱۹۱} پھر اگر وہ جنگ ختم کر دیں (صلح کرلیں)۔ تو اللہ بڑا بخشنے والا ہے{۱۹۲} اور اُس وقت تک لڑتے رہو جب تک فتنہ ختم نہیں ہوجائے تاکہ اللہ کا دین نافذ ہو۔ اور جب وہ لڑنا بند کر دیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنا{۱۹۳} حرمت کا مہینہ تو جب ہی ہے جب دوسرے بھی اُس کا احترام کریں یعنی حرمات کا قصاص (بدلہ) بھی ضروری ہے۔ اگر وہ تم پر زیادتی کریں تو تم بھی ویسی ہی زیادتی کرسکتے ہو جتنی انہوں نے کی ہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ اہلِ تقویٰ (گناہوں سے بچنے والوں) کے ساتھ ہے{۱۹۴} اور اللہ کی راہ میں خرچ بھی کرتے رہو۔ خود کو ہلاکت میں نہیں ڈالو اور احسان کرتے رہو۔ اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے{۱۹۵} پس حج اور عمرے کی نیت سے اللہ کا نام لے کر نکل پڑو۔ اگر روک دئیے جائو تو جس طرح ہوسکے قربانی کر دو اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہیں پہنچ جائے سر نہیں منڈانا۔ ہاں کوئی بیمار ہو یا کوئی اور تکلیف ہو تو سر منڈالے اور فدیہ میں روزہ رکھے یا صدقہ دے یا ایک قربانی کرے یہاں تک کہ امن و اطمینان ہوجائے تو متعہ حج بھی کرلے (حج و عمرہ ملا لے) اور جو میسر ہو قربانی دے۔ جسے قربانی میسر نہیں ہو وہ تین روزے رکھے حج کے دوران اور سات (روزے رکھے) جب (حج سے) واپس آئے یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اُن کے لئے ہے جن کے اہل و عیال مکہ میں نہیں ہیں۔ اور اللہ (کے عذاب) سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے{۱۹۶} اور حج کے مہینے تو سب کو معلوم ہیں تو جو شخص اِن مہینوں میں حج کی نیت کرلے وہ مباشرت، برے کاموں اور لڑائی جھگڑے سے دور رہے۔ تم جو اچھے کام کرتے ہو اللہ کو معلوم ہیں۔ اور اپنے ساتھ سفر کا خرچ لے لیا کرو اگرچہ بہترین سفر کا خرچ تو تمہارا تقویٰ (پاکدامنی) ہے۔ اور مجھ سے ڈرتے رہو اگر سمجھ رکھتے ہو{۱۹۷} اور گناہ نہیں اگر حج کے دوران اللہ کا فضل (تجارت سے) تلاش کرو۔ اور جب عرفات سے واپس ہو تو مشعر الحرام (مزدلفہ) میں اللہ کا ذکر کرو اور ذکر بھی اُس طرح کرو جس طرح بتلایا گیا ہے۔ پہلے تم اِن باتوں سے واقف نہیں تھے{۱۹۸} پھر واپس آئو جیسے دوسرے آئیں اور اللہ سے مغفرت مانگتے رہو بلاشبہ اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے{۱۹۹} اور جب اپنے مناسک (ارکانِ حج) پورے کر چکو تو منیٰ میں بھی اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ جیسے پہلے تم اپنے بزرگوں (دیوتائوں اور خدائوں) کا کیا کرتے تھے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ جوش سے کرو۔ بعض لوگ اللہ سے دُعا کرتے ہیں کہ اے پالنے والے (اللہ) جو کچھ دینا اِسی دنیا میں دیدے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا{۲۰۰} اور ان میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں اے مالک ہم کو دنیا میں بھی بھلائیاں دے اور آخرت میں بھی بھلائیاں دینا اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچانا{۲۰۱} ایسے لوگوں کو اُن کے اعمال کے مطابق اجر ملے گا ااور اللہ جلد حساب لینے والا ہے{۲۰۲} تو اِن مقررہ دنوں میں اللہ کو خوب یاد کرتے رہو۔ پھر جو جلدی کر کے دو ہی دن میں فارغ ہو جائے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔ اور جو ٹھہرا رہے اُس پر بھی گناہ نہیں کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ تمہیں اُس کے سامنے جانا ہے{۲۰۳} دنیاوی معاملات میں تم بعض لوگوں کی باتوں پر حیران ہوگے۔ وہ اپنی من گھڑت باتوں پر اللہ کو گواہ کرے گا (قسمیں کھائے گا) مگر وہی تمہارا بدترین دشمن ہے{۲۰۴} وہ واپس جا کر فساد پھیلانے میں مصروف ہوجائے گا تاکہ فصلیں اور نسلیں تباہ کرے مگر اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا{۲۰۵} اُس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اُس کا غرور اُسے گناہ پر اُکساتا ہے۔ اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے{۲۰۶} مگر بہت سے ایسے ہیں جو اللہ کو خوش رکھنے کے لئے اپنی جانیں بیچ دیتے ہیں تو اللہ اپنے ایسے بندوں پر فخر (رَئُوْفٌ) کرتا ہے{۲۰۷} تو اے ایمان لانے والو! پوری طرح اسلام کے قلعہ (سلم) میں داخل ہو جائو اور کسی سرکش کے پیچھے نہیں چلو وہ تمہارا دشمن ہے{۲۰۸} تم لوگ ایسے واضح احکام ملنے کے بعد بہکے تو جان لو کہ اللہ ہی عزت و حکمت کا مالک ہے{۲۰۹} کیا لوگ اِس انتظار میں ہیں کہ اللہ کا عذاب بادلوں کی شکل میں آجائے اور فرشتے اُتر پڑیں اور فیصلے ہوجائیں یہ سب اللہ کے کام ہیں{۲۱۰} بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے اُن کو کیسی واضح دلیلیں (احکام) دئیے تھے۔ پھر جو اللہ کی نعمت پاکر اسے بدلے تو اللہ سخت پوچھ گچھ کرنے والا ہے{۲۱۱} نافرمانوں کے لئے ہم نے دنیا کی زندگی دلکش بنا دی ہے۔ وہ مومنوں کا مذاق اُڑاتے ہیں لیکن جو لوگ گناہ (شرک) سے بچتے ہیں وہی قیامت کے دن اُن سے افضل ہوں گے۔ اور اللہ (انکو) بدلے میںبے شمار رزق دینا چا ہے گا{۲۱۲} پہلے سب انسان ایک ہی اُمت (قوم) تھے۔ پھر اللہ نے رسول بھیجے جو خوشخبری اور ہدایتیں لے کر آئے اُن کے ساتھ ہم نے کتابیں بھی بھیجیں جو سچائی کے ساتھ اُن کے مسائل حل کر دیتی تھیں تو اُن میں اختلافات پڑ گئے ۔اور اختلاف کیوں پڑا اس لئے کہ جن کو بعد میں کتاب ملی اُس میں زیادہ واضح احکام تھے تو وہ ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے۔ مگر اللہ ایمان والوں کو حکم دیتا ہے کہ سچائی میں مخالفت نہیں کریں بس اللہ کے حکم پر چلیں۔ اوراللہ(اسکو)ہدایت دیتا ہے جو سیدھی راہ کی طرف آنا چاہتاہے {۲۱۳} شاید تم سمجھتے ہو کہ (مسلمانوں میں جنم لیا تو) سیدھے جنت میں پہنچ جائو گے حالانکہ تم نے وہ مصیبتیں نہیں دیکھیں جو پہلے ایمان لانے والوں کو اُٹھانی پڑیں۔ اُنہیں مصیبتوں، سختیوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا جنہوں نے اُن کو ڈگمگایا۔ یہاں تک کہ رسول اور اُن کے ساتھی (بے صبری سے) کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے۔ حالانکہ اللہ کی مدد آہی رہی تھی{۲۱۴} تم سے پوچھتے ہیں ہم اپنا مال کس طرح خرچ کریں۔ اُن سے کہو جتنا خوشی سے ہو سکے (عفوا) اپنے والدین، رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کو دو۔ تم جو نیکیاں کرو گے اللہ اُن سے واقف ہے{۲۱۵} اور تم پر (اللہ کیلئے) لڑنا فرض کیا جاتا ہے یہ تمہیں ناگوار ہوگا مگر تم کیا جانو جسے تم برا سمجھتے ہو وہ تمہارے حق میں اچھا ہو اور تم کیا جانو جس چیز سے تم محبت کرتے ہو اس میں تمہارے لئے برائی ہو۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے{۲۱۶} پوچھتے ہیں حرمت کے مہینوں میں لڑناکیسا ہے۔ کہو اِن میں لڑنا برا ہے۔ مگر اللہ کی راہ سے روکنا، اللہ کی نافرمانی کرنا اور مسجد حرم کو بند کرنا، وہاں کے باشندوں کو نکال دینا اللہ کے نزدیک زیادہ برا ہے۔ کیونکہ فتنہ قتل سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔ یہ لوگ جنگ و جدل سے باز نہیں آئیں گے۔ جب تک تم ان کے دین میں واپس نہیں چلے جائو۔ مگر تم میں سے جو اپنے دین سے (مرتد ہو) وہ ایسا ہے گویا مر گیا اور نافرمان ہوگیا۔ اُس کے دنیا و آخرت کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ وہ جہنمی ہوگا اور وہاں ہمیشہ رہے گا{۲۱۷} جو لوگ ایمان لائیں گے، ہجرت کریں گے اور اللہ کی راہ میں کوشش کریں گے وہی اللہ کی بخشش (رحمت) کے حقدار ہوں گے۔ اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے{۲۱۸} تم سے جوئے اور شراب کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہو کہ ان میں سخت گناہ ہے۔ اگرچہ انسان کے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصانات فائدوں سے زیادہ ہیں۔ اور پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کریں تو کہو ’’العفوا‘‘ (جتنا خوشی سے دے سکو)۔ اس طرح اللہ اپنے احکام سمجھا کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور کرو{۲۱۹} دنیا اور آخرت کے معاملات میںا ور تم سے یتیم (سوتیلے) بچوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہو اُن کی پرورش (تربیت) بڑی نیکی ہے۔ اگر اُن کو اپنے ساتھ رکھو تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ اور اللہ فسادیوں اور اصلاح پسندوں کو جانتا ہے۔ اللہ چاہے تو تمہیں بھی مصیبت میں ڈال دے۔ بلاشبہ اللہ ہی عزت و حکمت کا مالک ہے{۲۲۰} اور مشرک (اللہ کا بیٹا، وسیلہ ٹھہرانے والی) عورتوں سے نکاح نہیں کرو جب تک وہ (بت پرستی چھوڑ کر) ایمان نہیں لائیں۔ مومن لونڈی مشرک (اللہ کا بیٹا، وسیلہ ٹھہرانے والی) بیوی سے بہتر ہے۔ شاید تمہیں حیرت ہو۔ اسی طرح مومن عورتوں کی شادی مشرکوں (اللہ کا بیٹا، وسیلہ ٹھہرانے والوں) سے نہیں کرو مومن غلام مشرک (اللہ کا بیٹا، وسیلہ ٹھہرانے والا) آزاد مرد سے اچھا ہے۔ اس پر تعجب نہیں کرو کیونکہ وہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تمہیں جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔ اللہ اپنے احکام بندوں کو سمجھانے کے لئے بتاتا ہے تاکہ وہ نصیحت یاد رکھیں{۲۲۱} اور تم سے مسئلہ حیض پوچھتے ہیں۔ کہو وہ نجاست ہے۔ اس زمانے میں عورتوں سے دور رہو جب تک وہ پاک نہیں ہوجائیں اُن کے قریب نہیں جائو۔ جب پاک ہوجائیں تو اللہ کے حکم (قانونِ فطرت) کے مطابق عمل کرو۔ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے{۲۲۲} تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں پس حسبِ مرضی آبیاری کرو۔ مگر نفس کو قابو میں رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یاد رکھو تمہیں اُس کے سامنے جانا ہے اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دیدو{۲۲۳} اور اللہ کے نام کو اپنی قسموں کی ڈھال نہیں بنائو (یعنی جھوٹی قسمیں نہیں کھائو) اس سے پرہیز کرو۔ اور اللہ سے ڈرو اور اصلاحِ معاشرہ کرتے رہو۔ اللہ سنتا اور جانتا ہے{۲۲۴} اللہ تمہاری لغو قسموں پر مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں جان بوجھ کر کھائو گے اُن کی گرفت کرے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا حلیم ہے{۲۲۵} جو لوگ اپنی عورتوں کے پاس نہیں جانے کی قسم کھالیں اُن کو چار ماہ انتظار کرنا چاہیے اگر اس عرصے میں میل ہوجائے تو اللہ بخشنے والا ہے{۲۲۶} لیکن اگر طلاق کا ارادہ کرلیں تو اللہ سنتا اور جانتا ہے{۲۲۷} اور مطلقہ عورتیں تین ماہ خود کو روکیں۔ اُن کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو کچھ اُن کے پیٹ میں بنایا ہے اُسے چھپائیں اگر وہ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔ اور اُن کے شوہر اُن کو واپس لینے کا حق رکھتے ہیں اگر اصلاحِ احوال چاہیں۔ اور عورتوں کا حق مردوں پر ویسا ہی ہے جیسا مردوں کا رواج کے مطابق اُن پر ہے۔ البتہ مردوں کا اُن سے کچھ درجہ بڑا ہے اور اللہ ہی عزت و حکمت کا مالک ہے{۲۲۸} طلاق (صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دیدی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو اعلانیہ روک کر میل کرلو یا حسن سلوک کے ساتھ رخصت کر دو۔ اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ مہر یا وہ چیزیں واپس لو جو اُن کو دی تھیں۔ ہاں اگر بیوی و شوہر کو خوف ہو کہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (شوہر کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ اللہ کی حدود (قوانین) ہیں ان سے تجاوز نہیں کرنا۔ جو اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کرے گا وہ ظالموں میں شمار ہوگا{۲۲۹} اس کے بعد پھر کبھی طلاق دی (تیسری بار) تو یاد رکھو وہ تمہارے لئے حلال نہیں ہوگی۔ جب تک کسی غیر سے نکاح نہیں کرے۔ پھر وہ بھی طلاق دیدے تو گناہ نہیں ہوگا اگر دونوں رجوع (نکاح) کرلیں۔ بشرطیکہ یقین ہو کہ آئندہ اللہ کی حدود کا احترام کریں گے۔ یہی اللہ کی حدود (قوانین) ہیں جو اہلِ علم کے لئے بیان کئے جاتے ہیں{۲۳۰} اور جب تم عورتوں کو (دو دفعہ) طلاق دو اور اُن کی عدت پوری ہوجائے تو یا تو انہیں علانیہ طور پر روک لو یا خوش دلی سے علانیہ طور پر رخصت کر دو۔ انہیں تکلیف دینے کے لئے نہیں روکو نہ کوئی زیادتی کرو۔ جو ایسا کرے گا وہ اپنی جان پر ظلم کرے گا۔ تم اللہ کے احکام کا مذاق نہیں بنانا۔ اور اللہ کی نعمتوں کو جو تم کو ملی ہیں یاد کرتے رہو۔ تم پر کتاب اور حکمت (دانائی و علم) اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ تم اس سے نصیحت حاصل کرتے رہو۔ اور اللہ سے ڈرو اور یاد رکھو کہ اللہ کو ہر بات کا علم ہوجاتا ہے{۲۳۱} اور جب عورتوں کو طلاق دو اور اُن کی عدت پوری ہوجائے تو اُن کو دوسرے نکاح سے نہیں روکو۔ اگر وہ آپس میں راضی ہوچکے ہوں۔ یہ نصیحت اُن لوگوں کے لئے ہے جو تم میں اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ تمہارے لئے پاکیزگی کی بات ہے اور احسن ہے۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے{۲۳۲} اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ یہ حکم اس کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ دودھ پلانے والی مائوں کا کھانا کپڑا رواج کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جائے۔ نہ ماں کو بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے۔ نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے۔ اور وارثوں پر بھی یہی ذمہ داری ہے۔ اگر دونوں آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو اُن پر کچھ گناہ نہیں۔ اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو دستور کے مطابق دودھ پلانے والیوں کا حق ادا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ دیکھتا ہے{۲۳۳} اور تم میں سے کوئی مرجائے اور بیویاں چھوڑ جائے تو وہ اپنے نفس کو چار مہینے اور دس دن روکے رہیں۔ جب عدت پوری ہوجائے تو گناہ نہیں اگر رواج کے مطابق وہ اپنی مرضی سے دوسرا نکاح کرلیں۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ دیکھتا ہے{۲۳۴} اور گناہ نہیں اگر تم نکاح کا پیام دو یا اِس تمنا کو دل میں چھپائے رہو۔ مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم اس کا اعلان کرو۔ پوشیدہ قول و قرار نہیں کرو۔ اور جب تک عدت پوری نہیں ہو نکاح کا ارادہ نہیں کرو۔ اور جان لو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تو اس سے پرہیز کرو۔ اللہ بڑا بخشنے والا اور بردبار ہے{۲۳۵} تم پر گناہ نہیں اگر عورتوں کو چھونے یا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دیدو۔ ایسی صورت میں حیثیت کے مطابق خرچ دیدو۔ صاحب حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق اور تنگدست اپنی حیثیت و رواج کے مطابق کچھ ضرور دے۔ نیک لوگوں کا یہی حق (فرض) ہے{۲۳۶} اور جب چھونے سے پہلے طلاق دو اور مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر ادا کرو۔ ہاں اگر عورتیں معاف کر دیں یا اُن کا ولی جس نے نکاح کروایا تھا معاف کر دے تو اور بات ہے۔ اور تم پورا مہر ادا کرو تو یہ تقویٰ (فساد کے بچنے) سے قریب ہے۔ آپس کی رواداری کو نظرانداز نہیں کرو۔ اللہ تمہارے کام دیکھتا ہے{۲۳۷} اپنی صلوٰۃ (دعا، عبادت) پر دھیان رکھو اور صلوٰۃ (دعا، عبادت) کے درمیان اللہ کے آگے (عاجزی، انکساری اور غلاموں کی طرح) ادب سے کھڑے رہو{۲۳۸} پھر اگر تم خوف کی حالت میں پیدل یا سوار ہو (اللہ کو یاد کرو) پھر جب امن ہوجائے تو بھی اللہ کو یاد کرتے رہو۔ جس طرح سکھایا گیا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے{۲۳۹} اور جو لوگ مرجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کرجائیں کہ اُن کو گھروں سے نہیں نکالا جائے۔ اُن کو حسبِ معمول خرچ دیا جائے۔ ہاں اگر وہ خود جانا چاہیں تو تم پر گناہ نہیں۔ وہ رواج کے مطابق اپنا دوسرا انتظام کرلیں۔ اور اللہ ہی عزت و حکمت کا مالک ہے{۲۴۰} اور طلاق والی عورتوں کو بھی حسبِ دستور خرچ دیا جائے۔ متقی (گناہوں سے بچنے والے) لوگوں پر یہ بھی لازم ہے (اگر وہ دوسرا نکاح نہیں کریں){۲۴۱} اللہ اسی طرح اپنے احکام سمجھاتا ہے تاکہ تم سمجھدار بن جائو{۲۴۲} اور تم نے اُن (یہود) کو کہاں دیکھا جو گھروں سے نکل بھاگے۔ وہ ہزاروں تھے مگر موت سے ڈرتے تھے۔ تو اللہ نے ان سے کہا جائو مرو (صحرا سینا میں)۔ پھر انہیں زندہ (قوم بنا کر) اُٹھایا۔ بلاشبہ اللہ انسانوں پر بے حد مہربان ہے لیکن اکثر لوگ احسان نہیں مانتے{۲۴۳} (تو تم ویسا نہیں کرنا) تم اللہ کی راہ میں لڑاکرو اور جان لو کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے{۲۴۴} اور جو اللہ کو قرض حسنہ دے گا اللہ اسے بڑھا چڑھا کر ادا کرے گا۔ اور اللہ ہی رزق میں تنگی اور وسعت دیتا رہتا ہے۔ اور تمہیں اسی سے رجوع کرنا ہے{۲۴۵} (اور سنو!) بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے موسیٰ کے بعد اپنے نبی سے کہا ہمارا ایک بادشاہ مقرر کردو جو اللہ کی راہ میں لڑاکرے۔ نبی نے کہا اگر تم پر لڑنا فرض کر دیا گیا تو تعجب نہیں تم جی چرانے لگو گے اور جنگ نہیں کرو گے۔ کہنے لگے واہ ہم کیوں نہیں لڑیں گے۔ ہم اور ہمارے بچے اپنے وطن سے نکالے گئے ہیں۔ مگر جب جنگ کا حکم دیا گیا تو چند کے سوا سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے{۲۴۶} پھر نبی نے کہا اللہ نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ تو کہنے لگے اُسے ہم پر بادشاہی کرنے کا کیا حق ہے۔ حکومت کے ہم اس سے زیادہ حقدار ہیں۔ اس کے پاس مال و دولت کہاں ہے۔ نبی نے کہا اللہ نے اسے تمہارے لئے چن لیا ہے۔ اُسے علم اور جسمانی قوت تم سے زیادہ دی ہے۔ اللہ اسے حکومت دیتا ہے جو اسکی اہلیت رکھتا ہے اور اللہ کا علم وسیع ہے{۲۴۷} نبی نے کہا اُس کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک تابوت (صندوق) آئے گا جس میں تمہارے پالنے والے(اللہ)کی طرف سے (سَکِیْنَۃٌ) تسلی ہوگی اور اُس میں آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کی یادگاریں ہوں گی۔ اُسے فرشتے اُٹھائے ہوں گے۔ بلاشبہ اِس میں تمہارے پالنے والے(اللہ) کی نشانیاں ہیں اگر تم صاحبِ ایمان ہو{۲۴۸} پھر جب طالوت اپنی فوج لے کر چلا تو کہا آگے دریا پر اللہ تمہاری آزمائش کرے گا۔ جو اس (دریا) کا پانی پی لے گا وہ میرا نہیں۔ جو نہیںپیئے گا وہی میرا (سپاہی) ہوگا۔ ہاں اگر چلو سے کلی کرلے تو حرج نہیں۔ تو سوائے چند کے سب نے پانی پی لیا۔ پھر جب وہ (طالوت) اور اُس کے (نام نہاد) اہلِ ایمان ساتھی دریا پار پہنچے تو کہنے لگے آج ہم میں جالوت اور اس کی فوج سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ لیکن جن لوگوں کو یقین تھا کہ انہیں اللہ کو منہ دِکھانا ہے بولے بعض وقت چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے بڑی جماعت پر غلبہ حاصل کرلیتی ہے اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے{۲۴۹} پھر جب وہ جالوت اور اُس کی فوج کے مقابل ہوئے تو کہا اے پالنے والے (اللہ) ہمارے حوصلے بڑھا دے، ہمارے قدم جما دے اور نافرمان قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما{۲۵۰} تو انہوں نے اللہ کے حکم سے دشمن کو شکست دیدی۔ اور دائود نے جالوت کو قتل کر ڈالا۔ تو اللہ نے اس کو بادشاہی اور دانائی (نبوت) دی اور جو چاہا سکھایا۔ اگر اللہ بعض قوموں کو بعض قوموں کے ذریعہ دفع نہیں کرتا رہے تو دنیا میں فساد پھیل جائے۔ اور اللہ اہلِ عالم پر فضل کرتا رہتا ہے{۲۵۱} بلاشبہ یہ اللہ کے احکامات ہیں جو تم کو سچائی کے ساتھ سناتے ہیں اور یقینا (اے محمدؑ) تم ہمارے رسولوں میں سے ہو{۲۵۲} اسی طرح ہم رسولوں میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت دیتے رہے ہیں۔ اِن میں کسی سے اللہ نے کلام کیا ہے، کسی کے درجات بلند کئے۔ اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی نشانیاں اور ہم نے فیض غیبی طاقت عطا کی۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ اس کے بعد لوگ آپس میں نہیں لڑیں کیونکہ ان کو کھلی نشانیاں دیدی گئی تھیں۔ مگر ایمان لانے والوں اور مخالفت کرنے والوں میں اختلاف ہوگیا۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو قتل نہیں کریں لیکن (یہ لوگ) وہ کرتے ہیں جو اللہ پسند نہیں کرتا {۲۵۳} پس اے ایمان لانے والو! ہمارے دئیے ہوئے مال میں سے خرچ کرلو اس دن کے آنے سے پہلے جب نہ خرید و فروخت ہوگی۔ نہ دوستی اور نہ کسی کی شفاعت کام آئے گی۔ اور اِس سے انکار کرنے والے ظالم شمار ہوں گے{۲۵۴} اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں۔ وہ زندہ ہے، قائم رہنے والا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اُسی کا ہے۔کسی کی مجال نہیں کہ اُس کی اجازت کے بغیر کوئی اُس سے(کسی کی) سفارش کرے۔ جو کچھ پہلے ہوچکا اور جو کچھ بعد کو ہونے والا ہے وہ سب جانتا ہے۔ تم اُس کے علم کے کسی حصہ کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے جب تک وہ خود نہیں دینا چاہے۔ اس کی کرسی اقتدار آسمانوں اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے اور اس کے لئے اُن سب کی حفاظت دشوار نہیں۔ وہ بڑا عالی مرتبہ اور عظمت والا ہے{۲۵۵} اس دین میں زبردستی کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہدایت کو گمراہی سے الگ کر دیا گیا ہے۔ جو شیطانی خدائوں سے کٹ کر اللہ پر ایمان لایا اُس نے ایک پکی گرہ تھام لی جو کبھی نہیں چھوٹے گی۔ اور اللہ بڑا سننے اور جاننے والا ہے{۲۵۶} اہلِ ایمان کا ولی صرف اللہ ہے جو انہیں (جہل کے) اندھیروں سے نکال کر (علم کی) روشنی میں لاتا ہے۔ مگر جو لوگ نافرمانی کرتے ہیں وہ باطل خدائوں کے اولیاء (دوست) ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے اندھیروں میں لے جاتا ہے۔ یہی لوگ آگ میں جلنے والے ہیں۔ وہاں ہمیشہ رہیں گے{۲۵۷} اور تم نے اُسے کہاں دیکھا جو ابراہیم سے اُن کے پالنے والے(اللہ)کے معاملے میں حجت کرتا تھا کیونکہ اُسے اللہ نے حکومت دیدی تھی۔ ابراہیم نے کہا میرا پالنے والا(اللہ) تو وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے۔ بولا میں بھی یہ کام کرسکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا میرا اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تم اُسے مغرب سے نکال دو۔ تو نافرمان چکرا گیا۔ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا{۲۵۸} اور اب اُس شخص کا قصہ سنو جو کسی گائوں سے گزرا جہاں کی چھتیں گر گئی تھیں۔ بولا اللہ انہیں کیسے زندہ کرے گا یہ سب تو مر چکے۔ تو اللہ نے اُسے سو سال کے لئے موت دیدی۔ پھر اُٹھایا اور پوچھا کتنے دن گزارے ہوں گے۔ بولا ایک دن یا کچھ زیادہ۔ فرمایا نہیں، تم یہاں سو سال پڑے رہے۔ اپنے کھانے پانی کو دیکھو (اُن کا کیا بنا) اور اپنے گدھے کو دیکھو (جو مرا پڑا ہے)۔ ہم نے تم کو انسانوں کے لئے ایک نشانی بنایا ہے۔ دیکھو ہم ہڈیاں کیسے جوڑتے ہیں اور اُن پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ یہ چیزیں دیکھ کر وہ چیخ پڑا میں جان گیا کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے{۲۵۹} اور جب ابراہیم نے اپنے پالنے والے(اللہ)سے کہا اے مالک تو مردوں کو کیسے اُٹھائے گا مجھے دِکھا دے۔ پوچھا کیا ایمان نہیں رکھتے۔ بولے کیوں نہیں۔ مگر میرے دل کو اطمینان ہوجائے گا۔ کہا چار پرندے لو اور اُن کو خود سے مانوس کرلو پھر اُن کو الگ الگ پہاڑیوں پر چھوڑ آئو پھر تم اُن کو بلائو گے تو وہ تمہارے پاس اُڑ کر آجائیں گے کیونکہ تم اُن کے رب (پالنے والے) ہوگے۔ اور جان لو کہ اللہ ہی عزت و حکمت کا مالک ہے وہ مردوں کو اسی طرح بلالے گا{۲۶۰} اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے مال کی مثال ایسی ہے کہ ایک دانہ بویا تو سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے۔ تو اللہ (اسکامال بڑھا) دیتا ہے جو (اپنا مال بڑھا نا)چاہتا ہے اور اللہ کا علم بہت وسیع ہے{۲۶۱} جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن کو صلہ اُن کے پالنے والے(اللہ) کے پاس ملے گا۔ اُن کو خوف ہوگا نہ غم{۲۶۲} نرمی سے ٹال دینا اور معافی مانگ لینا دل آزاری کر کے خیرات دینے سے بہتر ہے۔ اور اللہ بڑا غنی و حلیم ہے{۲۶۳} اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات احسان رکھ کر اور دل دُکھا کر باطل نہیں کیا کرو۔ جو دِکھاوے کیلئے خیرات دیتا ہے اور اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس کی مثال اُس چٹان کی سی ہے جس پر مٹی جم گئی ہو ذرا پانی برسے تو دُھل جائے۔ یہ لوگ اپنے اعمال سے کچھ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اور اللہ حق کا انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا{۲۶۴} اور اُن کی مثال جو اپنا مال اللہ کی خوشنودی کیلئے خرچ کرتے ہیں اور خلوصِ نیت سے دیتے ہیں۔ اُس باغ کی سی ہے جو ٹیلے پر ہو۔ جس پر بارش ہوجائے تو دوگنے پھل آئیں اور بارش نہیں ہو تو شبنم ہی کافی ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ دیکھتا ہے{۲۶۵} بھلا کون چاہے گا کہ اُس کا کھجور اور انگور کا باغ جس میں دریا بہتا ہو اور ہر طرح کے پھل آتے ہوں خشک ہوجائے یا اُس کے بچے چھوٹے ہوں اور اُس پر بڑھاپا آجائے یا ان سب پر آگ کا بگولا آجائے اور سب کو جلا کر راکھ کر دے۔ اللہ اپنی باتیں (حدیثیں) اسی طرح سمجھاتا ہے تاکہ تم غور کرو{۲۶۶} اے ایمان لانے والو! جو پاکیزہ روزی تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سے (غلے اور میوے) نکالتے ہیں اُن میں سے خیرات دو۔ اور خراب یا ناپاک مال سے خیرات نہیں دو کہ وہی چیزیں تم کو دی جائیں تو (لینے کے بجائے مارے شرم کے) آنکھیں بند کرلو۔ اور یاد رکھو اللہ بڑا غنی ہے اور وہی تعریف و شکر کے لائق ہے{۲۶۷} اور سرکشی، نافرمانی کرنے والا تم کو (فقر) تنگدستی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کے کام سکھاتا ہے۔ اور اللہ تم سے مغفرت اور بخشش کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑا وسیع علم رکھتا ہے{۲۶۸} وہ جسے چاہتا ہے(اسکی قابلیت کے مطابق) علم و حکمت (سائنس و ٹیکنالوجی)سیکھادیتا ہے اور جسے (اسکی قابلیت کے مطابق) علم و حکمت (سائنس و ٹیکنالوجی)سیکھا دے تو گویا اُسنے بڑی نعمت دیدی۔ اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں{۲۶۹} اور تم جو کچھ فضول خرچ (غیراللہ کی نذرونیاز) کرتے ہو اسے بھی جانتا ہے۔ مگر ظالموں و جاہلوں کا کوئی دستگیر (مددگار) نہیں ہوگا{۲۷۰} تم خیرات دِکھا کر دو یا چھپا کر مگر حاجتمندوں کو دو تو بہتر ہے۔ اُس سے تمہارے گناہ دُھل جائیں گے۔ اللہ تمہارے اعمال کی خبر رکھتا ہے{۲۷۱} (اے محمدؑ) لوگوں کو ہدایت یاب کرنا تمہاری ذمہ داری نہیں۔لیکن اللہ جسے چاہتا ہے(اسکے اعمال کے سبب)ہدایت دیتا ہے۔ اور تم جو نیک کام کرتے ہو اپنے نفس(ضمیر) کے لئے کرتے ہو۔ پس جو کچھ دو اللہ کی خوشنودی کے لئے دو۔ اور نیک کام میں جو کچھ لگائو گے اس کا بدلہ مل جائے گا۔ اور تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا{۲۷۲} اور محتاجوں کو جو اللہ کی راہ میں بیٹھے ہوں اور کہیں جانے کی طاقت نہیں رکھتے ہوں۔ اُن کے ہاتھ نہیں پھیلانے سے لوگ اُن کو بے احتیاج (غنی) سمجھتے ہیں۔ حالانکہ تم صورت دیکھ کر پہچان سکتے ہو۔ وہ شرم کی وجہ سے لوگوں سے منہ پھوڑ کر نہیں مانگتے۔ تم اُن کو جو کچھ دو گے اللہ اُسے جانتا ہے{۲۷۳} جو لوگ اپنا مال دن رات پوشیدہ اور ظاہر دیتے ہیں۔ اُن کا اجر اللہ کے پاس ملے گا۔ اور وہ نہ خوف کی زندگی بسر کریں گے نہ غم کی{۲۷۴} اور جو سود خور ہیں وہ قیامت کے دن اس طرح اُٹھیں گے جیسے خبطی جس پر آسیب کا اثر ہو۔ یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں سود خوری بھی ایک طرح کی تجارت ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود خوری کو حرام کیا ہے۔ پس جو اللہ کی نصیحت سن کر سدھر جائے تو پہلے جو ہوا ہوچکا اس کا معاملہ اللہ کے ہاتھ ہے۔ اور جو نہیں مانے گا وہ جہنم میں جائے گا اور وہاں ہمیشہ رہے گا{۲۷۵} اللہ سود خوری کو مٹانا اور صدقات کو رواج دینا چاہتا ہے اور اللہ نافرمانوں اور گنہگاروں کو پسند نہیں کرتا{۲۷۶} جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں یعنی صلات قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، اللہ اُن کو اچھا اجر دے گا۔ وہ خوف زدہ رہیں گے نہ غمگین ہوں گے{۲۷۷} اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور تمہارا سود کسی پر باقی رہ گیا ہو تو اسے معاف کر دو اگر تم واقعی ایمان لائے ہو{۲۷۸} ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اُس کے رسول سے جنگ کیلئے تیار ہوجائو۔ اگر توبہ کرلو گے تو تمہیں اپنی اصل رقم لینے کا حق ہوجائے گا تاکہ نہ کسی پر ظلم ہو نہ تم پر{۲۷۹} اگر مقروض تنگدست ہے تو اُس کو اللہ کا فضل ہونے تک مہلت دو۔ اور اگر معاف کر دو تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اگر سمجھو{۲۸۰} اور اس دن سے ڈرو جب اللہ کے سامنے پیش ہوگے۔ وہاں ہر شخص کو اُس کے اعمال کے مطابق جانچا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا{۲۸۱} اور اے ایمان لانے والو! جب تم کسی معینہ مدت کے لئے قرض لو تو لکھ پڑھ لیا کرو۔ اور لکھنے والا کسی کی جانبداری نہیں کرے۔ اور کوئی لکھنے والا جسے اللہ نے لکھنا سکھایا ہے دستاویز لکھنے سے انکار نہیں کرے خوشی سے لکھ دے۔ اور جو شخص قرض لے وہی دستاویز لکھائے۔ اور اللہ سے ڈرتا رہے کوئی کمی بیشی نہیں کرے۔ اور اگر قرض خواہ ناسمجھ یا بڈھا ہے یا مضمون لکھوانے کا اہل نہیں ہو تو اُس کا ولی (وکیل یا دوست) انصاف کے ساتھ دستاویز لکھا دے۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ کر لیا کرو۔ اگر دو مرد نہیں ملیں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن پر طرفین راضی ہوں۔ یہ اس لئے کہ ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلادے۔ اور جب گواہوں کو گواہی کیلئے بلایا جائے تو وہ انکار نہیں کریں۔ قرض تھوڑا ہو یا زیادہ لکھنے میں کاہلی نہیں کرو۔ یہ چیز اللہ کے نزدیک انصاف پر مبنی ہے اور شہادت کے لئے مفید ہے۔ بھول چوک سے بچانے کے لئے ذرا سی زحمت ہے۔ ہاں دست بدست تجارت کا معاملہ ہو یا آپس کا لین دین تو اگر دستاویز نہیں لکھو تو کوئی گناہ نہیں۔ لیکن خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ کرلو تو بہتر ہے۔ اور لکھنے والوں اور گواہوں کو کبھی نقصان نہیں پہنچانا۔ اگر ایسا کروگے تو گنہگار ہوگے۔ اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ اللہ تمہیں (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے{۲۸۲} اگر سفر میں ہو اور لکھنے والا نہیں ملے تو کوئی چیز رہن رکھا دیا کرو۔ اور جسے لوگ امین (امانتدار) جانیں اسے چاہیے کہ امانتیں واپس لوٹا دیا کرے اور اللہ سے جو سب کا پالنے والا ہے اس سے ڈرتا رہے۔ اور گواہی کو کبھی نہیں چھپانا جو چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہوگا۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے{۲۸۳} جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کا ہے۔ تم اپنے دل کی باتیں ظاہر کرو یا چھپائو اللہ اُن کا محاسبہ کرے گا۔ پھر وہ جسے چاہے(اسکے اعمال کے صلے میں) معاف کردے اور جسے چاہے (اسکے اعمال کے صلے میں)سزا دے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ {۲۸۴} اللہ کا رسول اُن باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اُس پر اُترتی ہیں۔ اور تمام مومن اللہ پر، اُس کے فرشتوں پر، اُس کی کتابوں پر، اُس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور رسولوں میں ایک دوسرے سے فرق نہیں کرتے۔ کہتے ہیں ہم سنتے ہیں اور اِطاعت کرتے ہیں۔ توہی بخشنے والا اور پالنے والا ہے اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹنا ہے{۲۸۵} اللہ کسی پر اُس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ جزا بھی کئے کی ملے گی اور سزا بھی کئے کی ہوگی۔ (پس دُعا کرتے رہو) اے پالنے والے (اللہ)ہماری بھول چوک پر گرفت نہیں کرنا اور ہم پر ویسا بوجھ (ذمہ داری) نہیں ڈالنا جیسا اگلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اور اے مالک اتنا بوجھ بھی نہیں ڈالنا جو ہم اُٹھانہیں سکیں۔ اے پالنے والے (اللہ) ہم کو بخش دے، ہم کو معاف کردے، ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا مولیٰ (مالک) ہے۔ اور نافرمانوں (یعنی حق کا انکار کرنے والوں) کے مقابلے میں ہماری مدد فرما{۲۸۶}۔٭٭٭٭٭٭