Online Account No.: PK27 UNIL 0109 0002 3125 1213 | Title: MUHAMMAD ALI | Bank: UBL | Branch Code: 0395 | New Karachi | Pakistan.
Home

Trust

Department of ...
Employment
Education
Help Depart
Medical
Ambulance Service
Activities
Marriage Bureau Management

Quran
Hamd-e-Allah

Books
Pamphlets

Image Gallery

Download Fonts

Contact Us


 

 

SYED TALIB ALI WELFARE TRUST
is distributing monthly ration/groceries,
household equipment, wheel chair etc. in special persons, orphaned
children and widows for last 7 year.

So please appeal to you, submit your donation in Trust Online Account No.: PK27 UNIL 0109 0002 3125 1213 | Title: MUHAMMAD ALI | Bank: UBL | Branch Code: 0395 | New Karachi | Pakistan.

(۱۲)
سورۂ یوسف (حضرت یوسفؑ)۔
سورۂ یوسف مکی ہے، اس میں ۱۱۱ آیتیں ہیں۔
اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
الف، لام، را۔ یہ روشن کتاب ایک نشانی ہے{۱} ہم نے اسے عربی زبان میں اتارا تاکہ تم پڑھو اور سمجھو{۲} ہم تم کو ایک اچھا قصہ سناتے ہیں وحی کے انداز میں جو (اے نبی) تم پہلے نہیں جانتے تھے{۳} یوسف نے اپنے باپ سے کہا اباجان میں نے گیارہ ستاروں اور چاند اور سورج کو دیکھا وہ میرے آگے سر جھکا رہے ہیں{۴} بولے بیٹا اپنا خواب اپنے بھائیوں کو نہیں سنانا وہ تم سے جلنے لگیں گے کیونکہ سرکشی، نافرمانی کرنے والا انسان کا دشمن ہے{۵} اس کا مطلب ہے کہ اللہ تم کو بڑائی دے گا، علم سیکھائے گا اور (تاویل الاحادیث) بات کی باریکیاں سمجھنے کی صلاحیت دے گا اور اپنی نعمتیں تمام کرے گا تم پر اور آلِ یعقوب پر بھی جس طرح تمہارے باپ دادا ابراہیم و اسحق پر کی تھیں۔ بلاشبہ تمہارا پالنے والا (اللہ) علم و حکمت کا مالک ہے{۶} یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں بہت سی نشانیاں ہیں پوچھنے والے (طالبِ علموں) کیلئے{۷} (بھائیوں نے آپس میں کہا) یوسف اور اس کا چھوٹا بھائی اباجان کو زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم سب ایک باپ کی اولاد (عصبہ) ہیں۔ ہمارے ابا سٹھیا گئے ہیں{۸} (تجویز ہوئی) یوسف کو مار ڈالو یا کہیں چھوڑ آئو تاکہ تمہارے باپ کی توجہ تمہاری جانب ہوجائے پھر تم نیک اولاد بن کر رہو{۹} ایک نے کہا یوسف کو قتل نہیں کرنا بلکہ جنگل کے کسی گڑھے میں ڈال دو۔ شاید کوئی قافلہ اسے نکال لے۔ کچھ کرنا ہے تو یوں کرو{۱۰} بولے اباجان آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے۔ ہم بھی اس کے بڑے ہیں{۱۱} کل اسے ہمارے ساتھ بھیجئے وہ بھی پھل کھائے اور کھیلے۔ ہم اس کی حفاظت کریں گے{۱۲} یعقوب نے کہا اسے کوئی لے جائے تو مجھے دُکھ ہوتا ہے۔ ڈرتا ہوں تم غافل ہوجائو اور اسے بھیڑیا کھا جائے{۱۳} کہنے لگے بھیڑیا کیسے کھا سکتا ہے۔ ہم اس کے بڑے بھائی کس کام آئیں گے{۱۴} پھر وہ اسے لے گئے اور طے کیا کہ جنگل کے ایک گڑھے میں چھوڑ دیں۔ ہم نے یوسف کو وحی کیا کہ ہم اس کے نتائج دکھائیں گے۔ جو وہ نہیں جانتے{۱۵} شام کو وہ سب باپ کے پاس روتے ہوئے پہنچے{۱۶} اور بولے اباجان ہم دوڑتے بھاگتے دور نکل گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا۔ اسے بھیڑیا کھا گیا۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا مگر ہم سچ کہتے ہیں{۱۷} وہ اس کی قمیص میں جھوٹ موٹ کا خون لگا لائے تھے۔ یعقوب نے کہا تم یہ باتیں دل سے گھڑ لائے ہو مگر میں برداشت کروں گا اور تم جو کچھ کہتے ہو اس پر اللہ سے مدد چاہوں گا{۱۸} وہاں سے ایک قافلہ گزرا اور پانی کیلئے اپنا آدمی بھیجا۔ اس نے ڈول ڈال کر اسے نکال لیا اور چلایا گو دیکھو مجھے یہ لڑکا ملا ہے۔ پھر اسے اپنا مالِ تجارت بنا کر چھپالیا۔ مگر اللہ جانتا تھا وہ کیا کر رہے تھے{۱۹} پھر انہوں نے اسے لے کر چند درہم کے عوض فروخت کر دیا۔ گویا وہ بڑے خوش معاملہ تاجر تھے{۲۰} مصر میں جس نے اسے خریدا، اپنی بیوی سے کہا اسے عزت و آرام سے رکھنا شاید اس سے ہمیں فائدہ ہو یا ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔ اس طرح ہم نے یوسف کو ایک دوسرے ملک میں بسا دیا تاکہ اسے تعلیم دی جائے اور وہ بات کی باریکیاں سمجھنے لگے۔ اللہ اپنے کام اسی طرح کرواتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے{۲۱} جب وہ جوان ہوا تو اسے آدابِ حکومت اور علومِ مروجہ سکھائے گئے۔ ہم اپنے نیک بندوں کو اسی طرح نوازتے ہیں{۲۲} پھر جس عورت کے گھر وہ پلے تھے اس نے بدنیتی سے ایک بار دروازے بند کرلئے اور کہا میں تیری ہوں۔ یوسف نے کہا میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ میرے مربی (آقا) نے میرا مرتبہ بلند کیا ہے۔ وہ احسان فراموشی کو نہیں بخشے گا{۲۳} تب اس نے دھمکایا۔ اور وہ ڈر جاتا اگر وہ اپنے آقا کی آہٹ نہیں سنتا۔ یہ اس لئے کیا گیا کہ وہ کسی بے حیائی اور برائی میں نہیں پڑجائے۔ وہ ہمارے منتخب بندوں میں سے تھا{۲۴} پس وہ دروازے کی طرف بھاگا اور عورت نے پیچھے سے کرتہ پکڑ کر پھاڑ لیا۔ دروازے پر اس نے اپنے شوہر کو پایا تو کہنے لگی ایسے کی کیا سزا ہے جو تمہاری بیوی سے برا ارادہ کرے۔ اسے قید کرو یا سخت سزا دو{۲۵} یوسف نے کہا انہی نے مجھے لبھانا چاہا تھا۔ پھر ان کے گھر کے ایک گواہ نے کہا کرتہ سامنے سے پھٹا ہے تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا ہے{۲۶} اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو تو یہ جھوٹی اور وہ سچا{۲۷} مگر کرتہ پیچھے سے پھٹا تھا۔ تب شوہر نے کہا یہ تمہاری مکاری ہے اور عورتوں کا مکر تو مشہور ہے{۲۸} پھر یوسف سے کہا تو اس کو بھول جا۔ اور اے عورت تو اپنے گناہ کی معافی مانگ بے شک خطا تیری ہے{۲۹} تب شہر کی عورتیں کہنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے لے پالک کو لبھانا چاہتی تھی۔ شاید اس پر فریفتہ ہے ہم سمجھتے ہیں وہ بھٹک گئی ہے{۳۰} اس نے عورتوں کے طعن سنے تو ان کو بلایا اور ضیافت کا اہتمام کیا۔ ہر ایک کو ایک ایک چھری دیدی اور حکم دیا کہ اسے (یوسف کو) سامنے لائو۔ اسے دیکھ کر عورتیں مرعوب ہوگئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بولیں سبحان اللہ یہ انسان نہیں کوئی فرشتہ ہے{۳۱} تب عورت نے کہا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھ پر طعن کرتی تھیں۔ ہاں میں نے ہی اسے لبھانا چاہا تھا مگر وہ بچ گیا لیکن اب حکم نہیں مانے گا تو قید کر کے رسوا کیا جائے گا{۳۲} (تب یوسف نے آقا سے کہا) اے آقا مجھے یہ حکم ماننے سے قید میں رہنا پسند ہے۔ اگر آپ میری مدد نہیں کریں گے تو میں ان کے مکر میں پھنس جائوں گا اور جاہلوں میں شمار ہوں گا{۳۳} پس اس کے آقا (عزیز مصر) نے اس کی گزارش منظور کی اور بیوی کے مکر سے بچالیا کیونکہ وہ سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا{۳۴} اس طرح باوجود اس کی بے گناہی کے انہوں نے مناسب جانا کہ کچھ دن کے لئے اسے قید کر دیں{۳۵} قیدخانے میں دو اور جوان آئے ایک نے کہا میں نے دیکھا کہ میں شراب بنا رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا میں نے دیکھا کہ میں روٹیاں لئے جارہا ہوں اور پرندے انہیں کھا رہے ہیں۔ ہمیں ان خوابوں کی تعبیر بتائو۔ ہم تمہیں نیک آدمی پاتے ہیں{۳۶} یوسف نے کہا تمہارا کھانا آنے والا ہے مگر میں اس کے آنے سے پہلے ان کی تاویل بتا دوں گا۔ اس لئے کہ میرے پالنے والے(اللہ) نے مجھے اس کا علم دیا ہے اور میں نے ان کو چھوڑ رکھا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور جو آخرت کا انکار کرتے ہیں{۳۷} میں اپنے باپ دادا ابراہیم و اسحق و یعقوب کی طرح مذہب (اسلام) کا پیروکار ہوں ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک(اولیائ، وسیلہ، بیٹا) نہیں بناتے۔ یہ ہم پر اللہ کا فضل ہے اور دوسروں پر بھی ہے مگر ان میں سے اکثر اس کا احسان نہیں مانتے{۳۸} اے قیدخانے کے دوستو! کئی خدا (داتا)اچھے یا ایک مالک (اللہ) جو سب پر غالب ہے{۳۹} اس کے سوا تم جن چیزوں کو پوجتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری ہے اور بادشاہی بھی اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں کرو۔ یہی قائم رہنے والا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے{۴۰} اے قیدخانے کے ساتھیو! تم میں سے ایک اپنے آقا کو شراب پلانے پر بحال ہوجائے گا۔ اور دوسرا سولی چڑھے گا اور پرندے اس کا سر نوچ کر کھائیں گے۔ جو حکم تم پوچھتے تھے وہ (قضا و قدر سے) صادر ہوچکا ہے{۴۱} پھر جس کے بارے میں بتلایا تھا کہ چھوٹ جائے گا اس سے کہا اپنے آقا سے میرا ذکر کرنا۔ مگر سرکشی، نافرمانی کرنے والے نے اسے بھلا دیا اور وہ اپنے رب (آقا) سے نہیں کہہ سکا۔ اس طرح وہ (یوسف) کئی سال قید میں رہے{۴۲} ایک بار بادشاہ نے کہا میں نے سات گائیں دیکھیں موٹی تازی جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی تھیں اور سات خوشے (بھٹے) شاداب دیکھے اور سات سوکھے۔ اے اہلِ دربار کیا تم میرے خواب کی تعبیر بتا سکتے ہو۔ اگر خوابوں کی تعبیر جانتے ہو{۴۳} انہوں نے کہا یہ پریشان خیال کا خواب ہے اور ہم ایسے خواب کی تعبیر نہیں بتاسکتے{۴۴} تو وہی (قیدی ) جو قید سے چھوٹا تھا ایک مدت بعد یاد کر کے کہنے لگا میں اس کی تعبیر بتاسکتا ہوں اگر (قیدخانے تک) بھیجا جائوں{۴۵} اس نے کہا یوسف میرے دوست ذرا تعبیر بتائو۔ سات موٹی گائیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات خوشے (بھٹے) شاداب ہیں اور سات سوکھے۔ جلدی بتائو تاکہ واپس جا کر لوگوں کو بتائوں اور وہ بھی جانیں{۴۶} یوسف نے کہا تم سات سال خوب کھیتی (فصل) اگائو گے تو جو کچھ کھانے کے بعد بچ رہے اسے چھلکوں میں محفوظ رکھو{۴۷} اس کے بعد سات سخت سال آئیں گے جن میں جو بچا رکھا تھا کھائو گے اگر بچا کر رکھو گے{۴۸} پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں خوب بارش ہوگی اور لوگ خوشحال ہوجائیں گے (اور جشن منائیں گے){۴۹} بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لائو۔ قاصد آیا تو یوسف نے کہا تم اپنے رب (آقا) کے پاس جائو اور پوچھو ان عورتوں کا کیا حال ہے۔ جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ یقینا میرا آقا ان کے مکر سے واقف ہوگا{۵۰} بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا اب کیا کہتی ہو کیا واقعی یوسف نے دست درازی کی تھی۔ بولیں پاک ہے ذات اللہ کی ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں پائی تو عزیز کی بیوی بولی اب سچ سامنے آگیا ہے۔ ہاں میں نے ہی اسے لبھانا چاہا تھا وہ یقینا سچا ہے{۵۱}یوسف نے بتلا دیا کہ یہ اس لئے کیا گیا کہ آقا کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کے پیٹھ پیچھے کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ خیانت کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا{۵۲} اور میں اپنی پاکدامنی نہیں جتاتا۔ میرا نفس بھی اگر اللہ رحم نہیں کرتا برائی پر مائل ہوسکتا تھا مگر اللہ بڑا بخشنے والا رحیم ہے{۵۳} بادشاہ نے کہا اسے لے آئو اس کی طرف سے میرا دل صاف ہے۔ پھر جب بات ہوئی تو کہا آج سے تم میرے امانت دار مقرب (درباری) ہو{۵۴} یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانے (محکمہ زراعت) دیجئے۔ میں غلہ محفوظ کرنا جانتا ہوں{۵۵} اس طرح ہم نے یوسف کو ملک میں اقتدار دلا دیا جہاں چاہیں بے خوف جائیں۔ ہم جس کو چاہتے ہیں (اسکے اعمال کے سبب ) اپنی رحمت میں لے لیتے ہیں اور اپنے اچھے بندوں کا اجر ضائع نہیں کرتے{۵۶} اور آخرت میں بہتر اجر ان کا ہوگا جو صاحب ایمان اور متقی (گناہوں سے بچنے والے) ہیں{۵۷} پھر یوسف کے بھائی اس کے پاس آئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا مگر وہ نہیں پہچان سکے{۵۸} جب سامان لدوا دیا تو کہا۔ اپنے اس بھائی کو بھی لانا جو باپ کے پاس رہ گیا ہے۔ میں ناپ بھر کر دیتا ہوں اور اچھا مہماندار بھی ہوں{۵۹} اگر اسے نہیں لائے تو یاد رکھو غلہ نہیں پائو گے۔ اپنے پاس بھی نہیں آنے دوں گا{۶۰} بولے ہم اپنے باپ کو اس پر راضی کریں گے اور ضرور لائیں گے{۶۱} یوسف نے ملازموں سے کہا ان کی رقم ان کی بوریوں میں رکھ دیں شاید گھر جائیں تو پہچان لیں اور واپس آئیں{۶۲} (باپ کے پاس لوٹے تو) کہا کہ ابا جان انہوں نے آئندہ غلہ دینے سے انکار کر دیا ہے اگر ہم چھوٹے بھائی کو ساتھ نہیں لے گئے اسے بھیجئے ہم اس کی حفاظت کریں گے{۶۳} بولے کیا اسے بھی اسی طرح تمہارے سپرد کردوں جیسے اس کے بھائی کو کیا تھا۔ خیراللہ سب سے اچھا حفاظت کرنے والا ہے اور وہ بے حد رحیم و مہربان ہے{۶۴} جب سامان کھولا گیا تو اپنی رقم دیکھی۔ بولے اباجان ہم کیا دیکھتے ہیں یہ ہماری رقم ہے جو واپس کی گئی ہے تاکہ ہم خوشحال رہیں۔ اب بھائی کو ساتھ بھیجئے تاکہ ایک اونٹ کا بوجھ زیادہ ملے یہ غلہ تو کم ہے{۶۵} بولے تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک اللہ کو گواہ کر کے وعدہ نہیں کرو کہ اسے بخیریت لائو گے۔ سوا اس کے کہ تم خود پکڑے جائو۔ تو انہوں نے پکی قسم کھائی بولے ہم جو کچھ کہتے ہیں اس پر اللہ گواہ ہے{۶۶} اور کہا اے بیٹو! تم سب ایک دروازے سے داخل نہیں ہونا۔ الگ الگ دروازوں سے جانا۔ اگرچہ میں تمہیں اللہ کے فیصلے سے نہیں بچاسکتا کہ حکم اسی کا چلتا ہے اور میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں۔ اور سب بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں{۶۷} پھر وہ اسی طرح داخل ہوئے جیسے باپ نے کہا تھا اگرچہ وہ تدبیر اللہ کا حکم ٹالنے والی نہیں تھی صرف یعقوب کے دل کی تسلی تھی اور وہ بھی جانتے تھے ہم نے ان کو علم دیا تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے{۶۸} سب دربار میں آئے اور چھوٹا بھائی یوسف سے ملا تو بولے میں تمہارا بھائی (یوسف) ہوں۔ مگر انہوں نے جو کچھ ہمارے ساتھ کیا اس پر افسوس نہیں کرو{۶۹} پھر جب سواریوں پر سامان لدوا یا تو اپنے بھائی کے تھلے میں سرکاری پیمانہ رکھوا دیا۔ اور جب وہ چلے تو ایک پکارنے والے نے پکارا اے اونٹ والو! تم چور ہو{۷۰} وہ آگے آئے اور پوچھا تمہاری کیا چیز کھوئی ہے{۷۱} بولے شاہی پیمانہ کھو گیا ہے جو لائے اسے ایک اونٹ غلہ انعام ملے گا{۷۲} کہنے لگے واللہ تم جانتے ہو ہم یہاں فساد کرنے نہیں آئے اور ہم چور بھی نہیں ہیں{۷۳} پوچھا اگر جھوٹے نکلے تو تمہاری کیا سزا ہوگی{۷۴} بولے سزا یہ ہے کہ جس کی سواری پر ملے وہ دھرلیا جائے ایسے ظالموں کی یہی سزا ہے{۷۵} تب یوسف نے اپنے بھائی سے پہلے ان کے تھیلے سے تلاشی شروع کی اور اپنے بھائی کے تھیلے سے ڈھونڈ نکالا۔ اس طرح ہم نے یوسف کی بات بناوی ورنہ وہ شاہی قانون کے مطابق کسی اجنبی کو روک نہیں سکتا تھا۔ مگر جو اللہ چاہے۔ وہ جس کا چاہتا ہے مرتبہ بلند کرتا ہے وہ سب جاننے والوں سے زیادہ جانتا ہے{۷۶} تب کہنے لگے اس نے چوری کی ہے تو اس کے بھائی نے بھی چوری کی ہوگی۔ یوسف نے ضبط کیا اور ظاہر نہیں ہونے دیا۔ کہا یقینا تم بری جگہ کے رہنے والے ہو۔ اللہ بہتر جانتا ہے تم کیا کہہ رہے ہو{۷۷} اب بولے عزت مآب اس کا باپ بہت بوڑھا ہے۔ آپ ہم میں سے کسی کو پکڑ لیجئے ہم دیکھتے ہیں آپ رحم دل ہیں{۷۸} یوسف نے کہا اللہ کی پناہ میں اس کے سوا کسی اور کو کیسے پکڑ سکتا ہوں جس سے مال برآمد ہوا کیا ہم ظالم ہیں{۷۹} مایوس ہو کر وہ آپس میں خلاصی کی تدبیریں سوچنے لگے۔ بڑے نے کہا تم جانتے ہو اباجان نے ہم سے اللہ کی قسم لی تھی اس سے پہلے تم یوسف کے ساتھ بھی یہی کچھ کرچکے ہو پس میں یہاں سے نہیں جائوں گا جب تک اباجان کا حکم نہیں آئے یا پھر اللہ اپنا حکم صادر فرمائے اور وہ سب سے اچھا حکم دینے والا ہے{۸۰} تم لوگ ابا کے پاس جائو اور کہو آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے۔ ہم نے دیکھا نہیں۔ بتایا گیا ہے اور ہم غیب کا حال نہیں جانتے{۸۱} آپ گائوں والوں اور اونٹ والوں سے پوچھ لیں۔ جنہوں نے دیکھا ہے ہم سچ بولتے ہیں{۸۲} یعقوب نے سنا تو کہا میں سمجھتا ہوں یہ بھی تمہاری من گھڑت ہے خیر میں تحمل کروں گا شاید اللہ ہم سب کو ایک جگہ جمع کرنے والا ہے وہ بڑا جاننے والا صاحبِ حکمت ہے{۸۳} پھر ان سے منہ پھیر لیا اور کہا یوسف پر افسوس ہے غم سے ان کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں{۸۴} لڑکے بولے واللہ آپ یوسف کی یاد میں رو رو کر بیمار ہوجائیں گے یا جان دیدیں گے{۸۵} بولے میں اپنا دکھ اپنے اللہ کو سناتا ہوں جس نے مجھے وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے{۸۶} اے بیٹو! جائو یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہو اللہ کی رحمت سے نافرمان ہی نااُمید ہوتے ہیں{۸۷} پھر وہ دربار میں آئے اور کہا عزت مآب ہم اور ہمارے گھر والے قحط کی وجہ سے تکلیف میں ہیں ہم تھوڑی پونجی لائے ہیں۔ آپ ناپ بھر کر دے دیجئے اور اسے صدقہ سمجھئے۔ اللہ صدقہ دینے والوں کو اچھا بدلہ دیتا ہے{۸۸} (تب یوسف نے کہا) تم کو یاد ہے تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا۔ کیا تم اتنے بھولے ہو{۸۹} پوچھا کیا تم یوسف ہو۔ بولے ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے جو (متقی) گناہوں سے بچتے ہیں اور محنت و برداشت کرتے ہیں۔ اللہ اپنے نیک بندوں کی مزدوری ضائع نہیں کرتا{۹۰} بولے اللہ کی قسم اللہ نے تم کو ہم پر فضیلت دی ہے۔ ہم تمہارے مجرم ہیں{۹۱} یوسف نے کہا آج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں اللہ تمہیں معاف کرے وہ سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے{۹۲} اب میری یہ قمیص لے کر جائو اور اباجان کے چہرے پر ڈال دو ان کی بینائی درست ہوجائے گی۔ پھر تم سب اپنے بال بچوں کے ساتھ یہاں آجائو{۹۳} جب قافلہ قریب آیا تو ان کے باپ نے کہا مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے اگر مذاق نہیں جانو{۹۴} لوگ بولے واللہ آپ سٹھیا گئے ہیں{۹۵} پھر جب خوشخبری والے آئے اور کرتہ ان کے منہ پر ڈالا گیا تو ان کی بینائی واپس آگئی۔ بولے میں نہیں کہتا تھا مجھے اللہ نے وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے{۹۶} (بیٹوں نے کہا) اباجان ہمارے گناہوں کی بخشش کی دعا کیجئے بیشک ہم خطاوار ہیں{۹۷} بولے ہاں میں اپنے پالنے والے (اللہ) سے تمہارے گناہوں کی معافی کی دعا کروں گا۔ وہ بڑا بخشنے والا رحیم ہے{۹۸} پھر جب وہ سب یوسف کے شہر میں آئے تو وہ اپنے والدین کو خوش آمدید کہنے آیا اور کہا مصر میں آپ اِن شاء اللہ امن کے ساتھ داخل ہوں گے{۹۹} پھر اپنے باپ کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا اور سب نے اس کے سامنے سر جھکا دیا۔ تو اس نے کہا اباجان یہ ہے میرے اس خواب کی تعبیر جسے میرے پالنے والے (اللہ) نے سچ کر دکھایا۔ اس کا احسان ہے اس نے مجھے قید سے نکالا اور آپ کو صحرا سے لا کر ملایا۔ ہرچند سرکشی، نافرمانی کرنے والے نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فتنہ ڈال دیا تھا۔ بلاشبہ میرا پالنے والا (اللہ) جس پر چاہتا ہے(اسکے اعمال کے سبب ) کرم کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا صاحبِ حکمت ہے{۱۰۰} اے پالنے والے (اللہ) تو نے مجھے حکومت دی ہے مجھے باتوں کی باریکیاں (تاویل الاحادیث) سمجھنے کا علم دیا۔ تو ہی آسمانوں اور زمین کو بنانے والا ہے۔ تو ہی دنیا و آخرت میں ہمارا مالک (مولا) ہے مجھے مسلم (اللہ کا فرمانبردار) اٹھانا اور نیکوں میں شامل کرنا{۱۰۱} یہ غیب کی باتیں ہیں جو (اے نبی) تم پر وحی کی جاتی ہیں اور(اے نبی ) تم اس وقت بھی موجود نہیں تھے جب وہ جمع ہو کر آپس میں سازش کر رہے تھے{۱۰۲} اے نبی تمہاری خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے{۱۰۳} تم اس تعلیم کا ان سے کوئی صلہ نہیں مانگتے یہ تو تمام دنیا کیلئے نصیحت کا کلام ہے{۱۰۴} آسمانوں اور زمین میں ہماری (قدرت کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔ ان کے پاس سے یہ گزرتے بھی ہیں مگر دھیان نہیں دیتے{۱۰۵} کیونکہ ان میں اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور شرک کے مرتکب ہوتے ہیں{۱۰۶} شاید بے فکر ہیں کہ وہ چھا جانے والا عذاب ان پر نہیں آئے گا یا ان پر بے خبری میں قیامت نہیں آسکتی{۱۰۷} ان سے کہو یہی میری راہ ہے۔ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور میرے ماننے والے (پیرو) بھی اپنی استعداد بھر یہی کرتے ہیں۔ اللہ کی ذات پاک ہے اور کسی کو اس کا شریک (اولیائ، وسیلہ) نہیں مانتے{۱۰۸} پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجے وہ بھی انسان ہی تھے۔ بستی والوں میں سے چن کر ان کو وحی بھیجی جاتی۔ تو کیا ان لوگوں نے دنیا کی سیر نہیں کی جو دیکھتے کہ اگلے لوگوں کا کیا حشر ہوا۔ اور آخرت کا گھر تو صرف متقی (گناہوں سے بچنے والے) لوگوں کے لئے ہے تو کیا سمجھتے نہیں{۱۰۹} ایسا بھی ہوا ہے کہ ہمارے رسول مایوس ہوگئے اور سمجھے وہ خود ہی جھوٹے ہیں اس وقت ہماری مدد آجاتی۔ پھر ہم جسے چاہتے (یعنی رسول اور اس کے ساتھیوں کو) بچا لیتے اور گنہگاروں کو تباہ کر دیتے{۱۱۰} سمجھدار لوگوں کیلئے ان قصوں میں بڑی عبرت ہے۔ یہ (قرآن) ایسی حدیث (باتیں) نہیں جو گھڑلی گئی ہوں۔ یہ تصدیق کرتی ہیں ان کتابوں کی جو پہلے آئی تھیں اور انہی باتوں کی تفصیل (وضاحت) کرتی ہیں۔ یہ اہل ایمان کے لئے ہدایت و رحمت ہیں{۱۱۱}۔

 

SYED TALIB ALI WELFARE TRUST
Online Account No.: PK27 UNIL 0109 0002 3125 1213 | Title: MUHAMMAD ALI | Bank: UBL | Branch Code: 0395 | New Karachi | Pakistan.
Home
Trust
Quran
Books
Download Fonts
Contact Us
SYED TALIB ALI WELFARE TRUST
© Copyright SYED TALIB ALI WELFARE TRUST Rights Reserved
Develop by: SYED MOHSIN ALI
Home | Trust | Quran| Books| Image Gallery | Download Fonts | Contact Us