Online Account No.: PK27 UNIL 0109 0002 3125 1213 | Title: MUHAMMAD ALI | Bank: UBL | Branch Code: 0395 | New Karachi | Pakistan.
Home

Trust

Department of ...
Employment
Education
Help Depart
Medical
Ambulance Service
Activities
Marriage Bureau Management

Quran
Hamd-e-Allah

Books
Pamphlets

Image Gallery

Download Fonts

Contact Us


 

 

SYED TALIB ALI WELFARE TRUST
is distributing monthly ration/groceries,
household equipment, wheel chair etc. in special persons, orphaned
children and widows for last 7 year.

So please appeal to you, submit your donation in Trust Online Account No.: PK27 UNIL 0109 0002 3125 1213 | Title: MUHAMMAD ALI | Bank: UBL | Branch Code: 0395 | New Karachi | Pakistan.

(۷)
سورۂ اعراف (انتظار گاہ)۔
سورۂ اعراف مکی ہے، اس میں ۲۰۶ آیتیں ہیں۔
اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
الف۔ لام۔ میم۔ صاد{۱} یہ کتاب (سورت) اس لئے اتاری جاتی ہے کہ تم دل برداشتہ نہیں ہو اور لوگوں کو چونکاتے اور سمجھاتے ہو{۲} کہ اے لوگو! اُن احکام کی پیروی کرو جو تمہارے پالنے والے(اللہ) کی طرف سے اُترتے ہیں اور اُس کے سوا کسی اولیاء (رفیق) کی پیروی نہیں کرو۔ مگر تم میں نصیحت ماننے والے کم ہیں{۳} ہم نے کتنی بستیاں تباہ کر دیں۔ ہمارا عذاب آتا تو وہ سوتے یا باتیں کرتے ہوتے{۴} اور جب عذاب آجاتا تو چلانے لگتے۔ اے مالک بیشک ہم ظلم (نافرمانی) کرتے رہے{۵} تو ہم اُن سے بھی پوچھیں گے جن کے پاس رسول بھیجے تھے اور اُن سے بھی جن کو رسول (بنا کر) بھیجا تھا{۶} پھر ہم اپنے علم (ریکارڈ) سے اُن کے اعمال سنوائیں گے کیونکہ ہم غائب نہیں تھے{۷} اُس دن اعمال کا تولا جانا سچ ہے پس جن کا وزن بھاری ہوگا وہ فلاح پائیں گے{۸} اور جن کے اعمال ہلکے ہوں گے وہ اپنی جانوں کو نقصان میں پائیں گے وہ ہماری باتوں (حدیثوں) کے ساتھ ظلم (انکار) کرتے تھے{۹} اور ہم نے تم کو زمین پر آباد کیا ہے اور ہم ہی تمہارے لئے اسبابِ معاش فراہم کرتے ہیں مگر تم میں کم ہی ہمارا احسان مانتے ہیں{۱۰} حالانکہ ہم نے ہی تم کو بنایا۔ تمہاری صورتیں بنائیں اور فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والا نہیں تھا{۱۱} ہم نے پوچھا تجھے سجدہ کرنے سے کس امر نے روکا۔ بولا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ مجھے تونے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے{۱۲} ہم نے کہا یہاں سے دور ہو۔ تجھے اس لئے نہیں بنایا تھا کہ غرور کرے۔ یہاں سے نکل جا تو حقیر مخلوق رہے گا{۱۳} بولا مجھے ان کے دوبارہ اُٹھنے کے دن تک مہلت دے{۱۴} ہم نے فرمایا ہاں تجھے مہلت دی گئی{۱۵} بولا تو نے مجھے دھتکار دیا ہے اب میں تیری ہدایت کے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا{۱۶} اور ان کو آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں سے اُس راہ سے روکوں گا۔ پھر تو ان میں سے اکثر کو احسان ماننے والا نہیں پائے گا{۱۷} ہم نے کہا یہاں سے نکل جا تو ہمیشہ ذلیل و خوار رہے گا اور جو لوگ تیرا کہا مان لیں گے میں اُن کو بھی تیرے ساتھ جہنم میں جھونک دوں گا{۱۸} پھر ہم نے آدم سے کہا اپنی بیوی کے ساتھ اس باغ میں رہو اور جہاں سے جی چاہے کھائو پیو مگر اس درخت کے قریب نہیں جانا ورنہ ظالموں (نافرمانوں) میں شامل ہوجائو گے{۱۹} پھر سرکشی، نافرمانی کرنے والے نے ان کو بہکا دیا۔ اُن کو وہ چیزیں دکھا دیں جو اُن سے چھپائی گئی تھیں۔ اور کہا تمہارے پالنے والے(اللہ) نے اس درخت سے اس لئے روکا ہے کہ ایسا نہیں ہو تم فرشتے بن جائو یا زندۂ جاوید ہوجائو{۲۰} اور قسمیں کھائیں کہ میں تمہارا ہمدرد ہوں{۲۱} اس طرح نافرمانی پر مائل کر دیا۔ پھر جیسے ہی اُس درخت سے چکھا اُن کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں اور وہ باغ کے پتے چھپکا کر چھپانے لگے۔ تو اُن کے پالنے والے (اللہ) نے آواز دی کیا میں نے تم کو اُس شجر سے روکا نہیں تھا اور تم سے کہا تھا کہ سرکشی، نافرمانی کرنے والا تمہارا دشمن ہے{۲۲} بولے اے مالک! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اگر تو معاف نہیں کرے گا اور رحم نہیں کھائے گا تو ہم نقصان میں پڑ جائیں گے{۲۳} فرمایا جائو تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوا کریں گے اور تمہیں زمین پر ٹھہرنا (بسنا) ہے اور چند دن فائدے اٹھانے ہیں (زندگی گزارنی ہے){۲۴} اور فرمایا کہ تم اسی میں جیو گے۔ اسی میں مرو گے اور اسی سے ایک دن پھر اُٹھائے جائو گے{۲۵} اے اولادِ آدم! ہم نے تمہارے لئے لباس اتارا ہے (لازمی کیا ہے) جو ستر چھپائے اور زینت دے۔ یوں تو پرہیزگاری کا (سادہ) لباس سب سے اچھا ہے۔ یہ اللہ کی باتیں (حدیثیں) ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو{۲۶} اور اے اولادِ آدم! دیکھو تمہیں سرکشی، نافرمانی کرنے والا بہکا نہ دے جس نے تمہارے باپ کو جنت سے نکلوایا اور ان کا لباس چھنوایا جو ستر چھپاتا تھا۔ وہ اور اس کے کارندے تمہیں ایسی جگہوں سے دیکھتے ہیں جہاں تم نہیں دیکھ سکتے۔بیشک جو ایمان نہیں لاتے وہ سرکشی، نافرمانی کرنے والے کے دوست (اولیائ) بن جاتے ہیں{۲۷} یہ لوگ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو یہی کرتے دیکھا ہے اور اللہ بھی یہی حکم دیتا ہے۔ کہو کہ اللہ بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں دیتا۔ تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو جانتے نہیں{۲۸} کہو میرا مالک انصاف کا حکم دیتا ہے پس سجدوں میں سرجھکائو تو اُس (اللہ) کے آگے اور دعا کرو شرک (کسی واسطے) سے خالص ہو کر کہ وہی حساب لینے والا ہے۔ جس طرح اُس نے پہلے بنایا تھا اُسی طرح پھر اُٹھائے گا{۲۹} تو کچھ لوگ ہدایت قبول کرلیتے ہیں اور کچھ پر گمراہی مقدر ہوجاتی ہے تو وہ اللہ کو چھوڑ کر سرکشی، نافرمانی کرنے والوں کو اپنا اولیاء (رفیق) بنالیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے ہدایت یاب ہیں{۳۰} اے لوگو! جب مسجدوں میں جائو تو اپنے اچھے کپڑے پہن لیا کرو اور کھائو پیو مگر اسراف (فضول خرچی) نہیں کرو اور جان لو کہ اللہ فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتا{۳۱} ان سے پوچھو اچھی پوشاکیں جو اللہ نے اپنے بندوں کو بنانا سکھائیں اور پاکیزہ کھانے کس نے حرام کئے ہیں۔ کہو یہ چیزیں تو اہلِ ایمان کے لئے دنیا کی زندگی کا انعام ہیں اور قیامت کے دن بھی انہیں کو ملیں گی۔ اللہ علم والوں کو اپنی باتیں اسی طرح سمجھاتا ہے{۳۲} اور کہو بے شک میرے پالنے والے (اللہ) نے حرام فرمایا ہے بے حیائی کے کاموں کو وہ پوشیدہ ہوں یا ظاہر۔ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور اللہ کے شریک (مورتیاں، وسیلہ) بنانے کو جن کی کوئی سند نہیں اور یہ بھی کہ بے جانے بوجھے اللہ سے کچھ منسوب کیا جائے{۳۳} اور ہر اُمت (قوم) کا وقت (عروج و زوال) معین ہے تو جب اُس کا وقت آجاتا ہے تو گھڑی بھر کی دیر سویر نہیں ہوتی{۳۴} اے اولادِ آدم! ہم اپنے رسولوں کو جو حکم دیتے ہیں وہ تم کو پہنچا دیتے ہیں۔ پس جو گناہوں سے بچے گا اور سدھر جائے گا وہ خوف اور غم سے امن میں رہے گا{۳۵} اور جو لوگ ہمارے کلام (حدیثوں) کو جھٹلائیں گے اور غرور سے منہ پھیر لیں گے وہ جہنم میں جائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے{۳۶} اور اس سے زیادہ ظلم کیا ہوگا کہ کوئی اللہ سے جھوٹ منسوب کرے یا اس کے کلام کو جھٹلائے۔ خیر اُن کو بھی اُن کے نصیب کا لکھا ملتا رہے گا۔ مگر جب ہمارے فرشتے اُن کی جانیں نکالنے آئیں گے اور پوچھیں گے کہ جن کو تم اللہ کے ساتھ پوجتے تھے وہ کہاں ہیں۔ اُس وقت کہیں گے اُنہی نے ہم کو گمراہ کیا تھا اور اپنی جانوں کی قسم کھائیں گے کہ بلاشبہ وہ نافرمان (کافر) تھے{۳۷} کہا جائے گا تو جائو جہنم میں ان کے ساتھ جو تم سے پہلے جنوں اور انسانوں میں سے اُس میں پڑیں ہیں۔ وہاں جو قوم جائے گی وہ دوسروں پر لعنت بھیجے گی یہاں تک سب جمع ہوجائیں گے تو آخر میں آنے والے اگلوں کے بارے میں کہیں گے یارب یہی ہیں جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا تو ان کو آگ کا دوگنا عذاب دے۔ فرمائے گا تم سب کو دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ تم یہ نہیں جانتے تھے{۳۸} تب اگلے لوگ پچھلوں سے کہیں گے کہ ایسی بات کہہ کر بھی تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب چکھو دوہرا عذاب یہی تمہارا انعام ہے{۳۹} جو لوگ ہمارے باتوں (حدیثوں) کو جھٹلاتے ہیں اُس سے منہ پھیرتے ہیں۔ اُن کے لئے آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ وہ جنت میں نہیں جاسکیں گے۔ جب تک سوئی کے ناکے سے اونٹ نہیں گزر جائے کہ گنہگاروں کی یہی سزا ہے{۴۰} اُن کے لئے آگ کا بچھونا ہوگا اور آگ کا اوڑھنا۔ ظالموں کا یہی انعام ہے{۴۱} لیکن جو ایمان لائیں گے اور اچھے کام کریں گے تو اللہ کسی پر اُس کی برداشت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ یہی لوگ جنتی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے{۴۲} ہم اُن کے دلوں سے کینہ کپٹ نکال دیں گے۔ اُن کے قدموں تلے دریا بہتے ہوں گے۔ وہ کہیں گے اللہ کا احسان ہے جس نے ہم کو یہاں بھیجا۔ اگر اللہ ہم کو رستہ نہیں دکھاتا تو ہم ہدایت نہیں پاتے۔ یقینا اس کے رسول سچائیاں لے کر آئے تھے۔ وہ اسی جنت کی خوشخبری دیتے تھے جو تم کو تمہارے اچھے اعمال کے صلے میں ملی ہے{۴۳} وہاں جنت میں رہنے والے دوزخ والوں سے کہیں گے ہم نے اپنے پالنے والے (اللہ) کا وعدہ جو ہم سے کیا گیا تھا سچ پایا۔ کیا تم نے بھی اپنے پالنے والے (اللہ) کا وعدہ سچا پایا۔ کہیں گے ہاں۔ تو ایک پکارنے والا اُن کے درمیان پکارے گا ظالموں پر اللہ کی لعنت پڑ گئی{۴۴} یعنی اُن پر جو اللہ کے راستے (دین) سے روکتے تھے، اُس میں نکتہ چینیاں کرتے تھے اور حساب آخرت کا انکار کرتے تھے{۴۵} پھر اُن کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا اور اعراف (انتظار گاہ) میں کچھ لوگ ہوں گے جو سب کو دیکھتے ہوں گے۔ وہ اہل جنت سے کہیں گے (سلامٌ علیکمٌ) سلام علیکم (تم پر سلامتی ہو)۔ وہ وہاں داخل نہیں ہوسکیں گے مگر امید رکھیں گے{۴۶} یہ لوگ اہلِ جہنم کی طرف دیکھیں گے تو کہیں گے اے پالنے والے (اللہ) ہمیں ان ظالموں میں شامل نہیں کرنا{۴۷} اور وہ اعراف (انتظار گاہ) والے اپنے جانے پہچانے چہروں سے پکار کر کہیں گے۔ افسوس تمہارا مال و اسباب کام نہیں آیا جس پر تم کو غرور تھا{۴۸} کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھاتے تھے کہ اللہ اُن کو اپنی رحمت میں نہیں لے گا۔ اب وہ جنت میں ہیں اور ان سے کہا جا رہا ہے یہاں کوئی ڈر نہیں، نہ غمگین ہونے کی نوبت آئے گی{۴۹} اور جہنم کے لوگ اہلِ جنت کو پکاریں گے کہ ہم کو تھوڑا سا پانی بھیج دو یا وہ کھانا جو تم کو اللہ دیتا ہے۔ تو وہ کہیں گے کہ یہ کھانا اور پانی اللہ نے نافرمانوں پر حرام کر دیا ہے{۵۰} جن لوگوں نے دین کو کھیل تماشہ بنالیا تھا اور دنیا کی زندگی پر مغرور تھے آج کے دن ہم نے اُن کو بھلا دیا ہے جس طرح وہ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اور ہماری باتوں (حدیثوں) کا انکار کرتے تھے{۵۱} ہم نے ان کے پاس کتاب بھیجی ہے جو علم کی باریکیاں سکھاتی ہے اور اہلِ ایمان کے لئے ہدایت و رحمت ہے{۵۲} تو کیا اب اس کی تاویل (سچ ہونے) کا انتظار ہے مگر جب تاویل سامنے آئے گی تو یہی لوگ جو اسے بھولے ہوئے تھے کہیں گے بیشک اللہ کے رسول سچ ہی لے کر آئے تھے۔ آج ہماری شفاعت کرنے والا کوئی نہیں۔ کاش ہم کو پھر دنیا میں بھیجا جائے تو وہ کام (شرک و نافرمانی) نہیں کریں گے جو پہلے کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا تھا اور جو باتیں وہ گھڑتے تھے سب اُلٹ گئیں{۵۳} جان لو کہ تمہارا پالنے والا صرف اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا ہے اور عرش پر قائم ہوا۔ وہ رات کو دن پر چڑھا دیتا ہے وہ اُس کو چھپالیتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ ہاں وہی بنانے والا ہے اور اسی کا حکم چلتا ہے۔ وہی برکتیں دینے والا ہے۔ اللہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے{۵۴}
پس اپنے اسی پالنے والے (اللہ) سے دعائیں مانگا کرو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے۔ وہ نافرمانوں کو پسند نہیں کرتا{۵۵} اور دنیا کا امن تباہ کرنے کے لئے فساد نہیں پھیلائو۔ اپنے پالنے والے (اللہ) سے خوف اور اُمید کے ساتھ دعائیں مانگتے رہو۔ اس میں شک نہیں کہ اُس کی رحمت احسان ماننے والوں سے قریب رہتی ہے {۵۶} وہی ہوائیں بھیجتا ہے جو بارانِ رحمت کی خوشخبری لاتی ہیں۔ پھر وہ بوجھل بادلوں کو لاتی ہیں اور ہم انہیں مردہ زمین کی طرف لے جاتے ہیں اور وہاں پانی برسا دیتے ہیں۔ جس سے ہر طرح کے پھل نکل آتے ہیں۔ اسی طرح ہم مردوں کو زمین سے اٹھائیں گے۔ کاش تم سمجھو{۵۷} پھر اچھی زمین اپنے پالنے والے (اللہ) کے حکم سے طرح طرح کی فصلیں اگاتی ہے مگر بنجر زمین سے کچھ نہیں اُگتا سوائے کیچڑ کے۔ اللہ اپنے احسان ماننے والے بندوں کو اسی طرح سمجھاتا ہے{۵۸} ہم نے نوح کو اُس کی قوم کا رسول بنایا۔ انہوں نے کہا اے لوگو! اللہ کی بندگی کرو اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں۔ مجھے ڈر ہے تم پر عذاب آنے والا ہے{۵۹} اُن کی قوم کے سرداروں نے کہا ہم تم کو بہکا ہوا آدمی سمجھتے ہیں{۶۰} بولے بھائیوں مجھے بہکا ہوا نہیں سمجھو۔ میں جہانوں کے پالنے والے (اللہ) کا بھیجا (رسول) ہوں{۶۱} میں تمہیں اپنیپا لنے والے (اللہ) کا پیغام پہنچا رہا ہو اور نصیحت کرتا ہوں۔ مجھے اللہ نے وہ باتیں بتائی ہیں جو تم نہیں جانتے{۶۲} تمہیں تعجب ہے کہ تمہارے پالنے والے (اللہ) نے تمہارے جیسے ایک شخص پر ہدایت اتاری ہے کہ وہ تمہیں چونکائے اور ڈرائے تاکہ تم پر رحم کیا جائے{۶۳} مگر انہوں نے جھٹلا دیا۔ تو ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں بچالیا۔ اور ہماری آیتوں (حدیثوں) کو جھٹلانے والوں کو غرق کر دیا۔ بلاشبہ وہ (عقل سے) اندھی قوم تھی{۶۴} اور قومِ عاد پر اُن کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اُس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں پھر ڈرتے کیوں نہیں{۶۵} تو قوم کے نافرمان بوڑھوں نے کہا ہم تم کو احمق سمجھتے ہیں بلکہ تم یقینا جھوٹے ہو{۶۶} اُس نے کہا اے لوگو! مجھ میں حماقت کی کیا بات ہے میں جہانوں کے پالنے والے (اللہ) کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں{۶۷} میں تمہیں اپنے پالنے والے (اللہ) کا پیغام پہنچا رہا ہوں اور میں ایک دیانتدار ناصح (نصیحت کرنے والا) ہوں{۶۸} تم حیران ہو کہ تم میں سے ایک آدمی تمہارے پالنے والے (اللہ) کا پیغام لے کر آیا ہے۔ اور وہ تم کو ڈراتا اور نصیحت کرتا ہے۔ اللہ نے تم کو نوح کی قوم کے بعد زمین کا وارث بنایا ہے اور تمہاری آبادی بڑھا دی ہے۔ تمہیں اللہ کی نعمتوں کا احسان ماننا چاہیے تاکہ وہ تم کو فلاح (خوشحال بنا) دے {۶۹} بولے کیا تم اس لئے آئے ہو کہ جسے ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ کر تمہارے اکیلے اللہ کو پوجنے لگیں اگر سچے ہو تو وہ عذاب لے کر آئو جس سے ڈراتے ہو{۷۰} ہمارے رسول نے کہا یقینا تم پر اللہ کا قہر اور عذاب آنے والا ہے۔ تم مجھ سے ایسے ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں مگر اللہ نے ان کی کوئی سند نہیں دی ہے۔ تو انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں{۷۱} پھر ہم نے اپنے رسول کو مع اس کے ساتھیوں کے اپنی رحمت سے بچالیا۔ اور ان لوگوں کی جو ہماری باتوں (حدیثوں) کو جھٹلاتے تھے جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان والے نہیں تھے{۷۲} اور ثمود کے پاس اُن کے بھائی صالح کو بھیجا اُس نے کہا اے لوگو! اللہ کی بندگی قبول کرو۔ اُس کے سوا کوئی پوجنے کے لائق نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے پالنے والے (اللہ) کی دلیلیں آگئی ہیں یہ اللہ کی اونٹنی ہے اس میں تمہارے لئے معجزہ ہے۔ اسے اللہ کی زمین میں چرنے دو۔ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچانا ورنہ تم سخت عذاب میں ڈالے جائو گے{۷۳} اور یاد کرو تم کو عاد کے بعد اس سرزمین کا وارث بنایا اور پھیلایا گیا ہے تم کچی مٹی کے گھر بناتے ہو اور پہاڑ تراش کر اُن میں رہتے ہو۔ پس اللہ کی نعمتوں کا احسان مانو اور دنیا میں فساد نہیں پھیلائو{۷۴} تو اُن کی قوم کے مغرور بوڑھوں نے اُن غریبوں سے کہا جو ایمان لائے تھے کیا تم سمجھتے ہو کہ صالح اپنیپالنے والے (اللہ) کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں۔ وہ بولے ہاں! جو باتیں (نصیحتیں) وہ لائے ہیں ہم اُن پر ایمان لائے ہیں{۷۵} مغروروں نے کہا تم جس چیز پر ایمان لائے ہو۔ ہم اس کو جھوٹ سمجھتے ہیں{۷۶} پھر انہوں نے اونٹنی کی رگیں کاٹ دیں اور اپنے پالنے والے (اللہ) کی نافرمانی کی اور بولے اے صالح اب تم اپنے پالنے والے (اللہ) کا عذاب لے آئو اگر واقعی رسول ہو{۷۷} تو اُن کو زلزلے نے آلیا اور وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے{۷۸} صالح وہاں سے چلے تو بولے اے قوم میں تمہیں اپنے پالنے والے (اللہ) کا پیغام پہنچاتا رہا۔ نصیحت کرتا رہا لیکن تم نصیحت کرنے والے کو پسند نہیں کرتے تھے{۷۹} اور لوط نے اپنی قوم سے کہا تم ایسے بے حیائی کے کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی قوم نے نہیں کئے ہوں گے{۸۰} تم اپنی عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے خواہش پوری کرتے ہو یقینا تم ایک قانون شکن (مجرم) قوم ہو{۸۱} تو اُن کی قوم نے کیا جواب دیا، بولے انہیں اپنے گائوں سے نکال دو یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں{۸۲} تو ہم نے لوط اور ان کے گھر والوں کو بچالیا سوائے ان کی بیوی کے جو وہیں رہنا چاہتی تھی{۸۳} اور اُن پر بارش برسا دی۔ پھر دیکھو اُن جرائم پیشہ کا کیا حشر ہوا{۸۴} اور اہلِ مدائن سے اُن کے بھائی شعیب نے کہا اے قوم! اللہ کی بندگی اختیار کرو اور یقین جانو اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے پالنے والے (اللہ) کی نشانیاں آگئی ہیں۔ تم ناپ تول میں دھاندلی نہیں کیا کرو۔ اور لوگوں کو چیزیں کم تول کر نہیں دیا کرو اور دنیا کا امن تباہ نہیں کرو۔ یہ تمہارے لئے اچھا ہے اگر صاحبِ ایمان ہو{۸۵} اور تم راستوں میں بیٹھ کر لوگوں کی راہ نہیں روکا کرو (نہ رہزنی کرو) اور جو اللہ پر ایمان لائے ہیں اُن کو اللہ کے راستے سے ہٹانے اور بھٹکانے کی حرکتیں چھوڑ دو۔ یاد کرو تم تھوڑے تھے اللہ نے تمہیں ایک بڑی قوم بنا دیا۔ اور دیکھ لو کہ خرابی پھیلانے والوں کا حشر کیا ہوتا ہے{۸۶} تم میں سے ایک جماعت اللہ کے رسول پر ایمان لے آئی ہے اور ایک جماعت ایمان نہیں لاتی تو برداشت کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے{۸۷} تو قوم کے مغرور بوڑھوں نے کہا اے شعیب ہم تم کو اور تم پر ایمان لانے والوں کو اپنے گائوں سے نکال دیں گے۔ ورنہ ہمارے مذہب میں واپس آئو۔ پوچھا خواہ ہم کو اس سے نفرت ہی کیوں نہ ہو{۸۸} پھر تو ہم اللہ پر جھوٹ لگانے والے بن جائیں گے اگر تمہارا مذہب قبول کرلیں۔ جبکہ اللہ نے ہم کو اس سے نجات دلائی ہے۔ ہم تمہارے مذہب میں اللہ کی مرضی کے خلاف واپس نہیں آسکتے۔ اللہ کا علم ہر چیز کے بارے میں وسیع ہے پس ہم اللہ پر بھروسہ کریں گے۔ (اور شعیب دعا کی) اے پالنے والے (اللہ) ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ کردے۔ تو ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے{۸۹} نافرمان بوڑھوں نے کہا اے لوگو! تم نے شعیب کی پیروی کی تو نقصان اٹھائو گے{۹۰} پھر ان کو زلزلے نے آلیا۔ صبح ہوئی تو وہ اوندھے پڑے تھے{۹۱} اور شعیب کو جھٹلانے والے ایسے تباہ ہوئے گویا کبھی آباد ہی نہیں تھے۔ ہاں شعیب کو جھٹلانے والے نقصان میں پڑ گئے{۹۲} شعیب وہاں سے چلے تو کہا اے لوگو! میں نے تم کو اپنے پالنے والے (اللہ) کا پیغام پہنچا دیا تھا اور نصیحت کر دی تھی تو میں نافرمانوں کی تباہی پر افسوس کیوں کروں{۹۳} ہم جب کسی گائوں میں اپنا نبی بھیجتے تو پہلے وہاں کے رہنے والوں کو سختی اور آزمائش میں ڈال دیتے تاکہ وہ عاجز ہوجائیں{۹۴} پھر برے دن ختم کر کے اچھے دن لاتے اور اُن کو معاف کر دیتے۔ تو کہنے لگتے کہ برے بھلے دن تو ہمارے باپ دادا پر بھی آتے تھے۔ تب ہم اُن کی رسی کھینچ لیتے اور وہ بے خبر ہوتے{۹۵} اگر اُن بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور گناہوں سے بچتے تو ہم آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے مگر وہ جھٹلاتے رہے اور اُن کو اُن کے کئے کی سزا مل گئی{۹۶} تو کیا بستی والے اس سے بے خوف ہیں کہ ہمارا عذاب رات کو آجائے جب یہ گھروں میں سو رہے ہوں{۹۷} یا بستیوں والے بے فکر ہیں کہ ہمارا عذاب دن میں نہیں آسکتا جب یہ کھیل رہے ہوں{۹۸} تو کیا یہ اللہ کی سزا سے بے خوف ہیں۔ اللہ کی سزا سے بے خوف کون ہوسکتا ہے سوائے اُن کے جو نقصان اٹھانے والے (جہنمی) ہیں{۹۹} تو کیا اُن لوگوں کے لئے جو اپنے بزرگوں کے بعد زمین کے وارث ہوئے ہیں یہ باعث ہدایت نہیں کہ ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت ڈال دیں یا ان کے دلوں پر مہر لگا دیں پھر یہ کچھ سن اور سمجھ نہیں سکیں{۱۰۰} یہ چند گائوں تھے جن کے قصے تمہیں سنائے گئے کہ جب ہمارے رسول ہماری نشانیاں لے کر جاتے تو وہ ایسے نہیں تھے کہ ایک بار انکار کرنے کے بعد پھر ایمان لے آتے۔ یہ اس لئے کہ اللہ نافرمانوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے{۱۰۱} اور اُن میں اکثر کو ہم نے بدعہد پایا اور اکثر کو بدکار دیکھا{۱۰۲} پھر اُن کے بعد موسیٰ کو فرعون اور اُس کے درباریوں کے پاس اپنی نشانیاں دے کر بھیجا تو انہوں نے بھی ظلم (انکار) کیا پھر دیکھو فساد کرنے والوں کا کیا حشر ہوا{۱۰۳} موسی نے کہا اے فرعون میں اللہ کا رسول ہوں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے{۱۰۴} میں سچ کہتا ہوں اور اللہ کی طرف سچ کے سوا کچھ منسوب نہیں کرتا۔ میں تمہارے پالنے والے (اللہ) کی نشانیاں لایا ہوں۔ تم بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دو{۱۰۵} فرعون نے کہا اچھا اپنی نشانیاں دکھائو اگر سچے ہو{۱۰۶} موسیٰ نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی تو وہ سانپ کی طرح چلنے لگی{۱۰۷} اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو لوگوں کو چمکتا دکھائی دیا{۱۰۸} تب فرعون کے درباریوں نے کہا بلاشبہ یہ بڑا جادوگر ہے{۱۰۹} غالباً یہ آپ کو یہاں سے نکالنا چاہتا ہے پھر آپ کا حکم کیا ہے{۱۱۰} وہ بولا ابھی اسے اور اس کے بھائی کو رہنے دو اور اپنے آدمی شہروں میں بھیجو{۱۱۱} تاکہ وہ ہمارے ماہر جادوگروں کو بلا لائیں{۱۱۲} جب جادوگر فرعون کے پاس آئے تو بولے ہم کو یقینا انعام ملے گا اگر ہم جیت گئے{۱۱۳} کہا ہاں تم کو درباری جادوگر بنایا جائے گا{۱۱۴} انہوں نے پوچھا اے موسیٰ! تم اپنی چیزیں پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں{۱۱۵} موسیٰ نے کہا تم پھینکو۔ تو جب انہوں نے اپنا جادو پھینکا وہ لوگوں کی نظروں میں ڈرائونی چیزیں بن گیا اور وہ بڑا جادو تھا{۱۱۶} پھر ہم نے موسیٰ کو حکم دیا اب تم اپنی لاٹھی پھینکو تو وہ جادوگروں کی چیزوں کو کھانے لگی{۱۱۷} اس طرح حق (سچ) جیت گیا اور انہوں نے جو کچھ کہا تھا جھوٹ ثابت ہوا{۱۱۸} اور وہ ہار کر شرمندہ ہوگئے{۱۱۹} اور تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے{۱۲۰} اور بولے ہم تمام جہانوں کے پالنے والے (اللہ) پر ایمان لائے{۱۲۱} یعنی موسیٰ اور ہارون کے پالنے والے (اللہ) پر{۱۲۲} تب فرعون نے کہا تم میری اجازت کے بغیر ایمان کیسے لائے۔ یہ تمہاری سازش ہے۔ تم نے ان سے مل کر یہ سازش کی ہے تاکہ ہم کو یہاں سے نکال دو۔ میں تم کو اس کا مزہ چکھائوں گا{۱۲۳} میں تمہارے ہاتھ پائوں مخالف جانب سے کٹوائوں گا پھر تم سب کو سولی پر چڑھوائوں گا{۱۲۴} انہوں نے کہا اب تو ہم اپنے پالنے والے (اللہ) سے رجوع کرچکے{۱۲۵} اور آپ ہم سے کس گناہ کا انتقام لیں گے۔ صرف اس کا کہ ہم اپنے پالنے والے (اللہ) کی باتوں (حدیثوں) پر ایمان لائے ہیں جو ہمارے پاس آئی ہیں۔ (پھر فرعون کے جادوگروں نے دُعا کی) اے پالنے والے (اللہ) ہمیں برداشت کی توفیق دے اور ہم مریں تو مسلم (اللہ کے آگے سرجھکانے والے) مریں{۱۲۶} تب فرعون کے درباریوں نے پوچھا تو کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دیں گے کہ وہ ملک میں فساد پھیلاتے پھریں یعنی آپ سے اور آپ کے بنائے ہوئے داتائوں سے برگشتہ کر دیں۔ فرعون نے کہا ہم اُن کے بیٹوں کو قتل کرتے ہیں اُن کی عورتوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ ہم اُن پر ہر طرح غالب ہیں{۱۲۷} تب موسیٰ نے قوم سے کہا اللہ سے مدد چاہو اور برداشت کرو۔ زمین تو اللہ کی ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث (مالک) بنا دیتا ہے۔ مگر اللہ سے ڈرنے والوں کی عاقبت بہتر ہوگی (فتح ہوگی){۱۲۸} وہ بولے تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور تمہارے آنے کے بعد بھی۔ موسیٰ نے کہا مجھے اُمید ہے کہ تمہارا پالنے والا (اللہ) تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر دے گا اور تمہیں دنیا میں بادشاہی دے گا اور دیکھے گا کہ تم کیا کرتے ہو{۱۲۹} پھر ہم نے آلِ فرعون کو قحط میں اور پھلوں کی قلت میں مبتلا کر دیا کہ شاید وہ سدھر جائیں{۱۳۰} جب ایک مصیبت سے چھوٹتے تو کہتے یہ تو ہونا ہی تھا اور جب کوئی مصیبت آجاتی تو کہتے یہ موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی نحوست ہے۔ حالانکہ اللہ کے پاس یہ اُن کی اپنی نحوست ہوتی تھی مگر وہ سمجھتے نہیں تھے{۱۳۱} کہتے تم ہمارے پاس کیسا ہی معجزہ لائو اور جادو کرو ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے{۱۳۲} چنانچہ ہم نے اُن پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل بھیجا، جوئیں اور مینڈک اور خون کے عذاب دئیے اور وہ سب ہماری نشانیاں تھیں مگر وہ تکبر سے باز نہیں آئے وہ جرائم پیشہ قوم تھے{۱۳۳} جب اللہ کا غضب آتا تو کہتے اے موسیٰ! ہمارے لئے اپنے پالنے والے (اللہ) سے دُعا کرو جس سے تمہارا سمجھوتہ ہے۔ اگر اس عذاب سے ہم بچ جائیں تو تم پر ایمان لے آئیں اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ بھیج دیں{۱۳۴} پھر جب ہم اپنا عذاب کچھ مدت کے لئے روک لیتے تو وہ اپنے قول سے پھر جاتے{۱۳۵} تو ہم نے اُن سے انتقام لے لیا سب کو سمندر میں ڈبا دیا۔ وہ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے تھے اور اُن سے غفلت برتتے تھے{۱۳۶} اور ہم نے اس قوم کو جسے کمزور کیا گیا تھا (یہودی) اُس علاقے کا وارث بنادیا۔ جس کے مشرق و مغرب میں ہم نے برکتیں رکھیں ہیں (صحرائے سینا)۔ اس طرح تمہارے پالنے والے (اللہ) نے بنی اسرائیل سے اُن کی برداشت و ثابت قدمی کی وجہ سے اپنا اچھا وعدہ پورا کر دیا۔ اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ اُن سے بنواتی اور بلند کرواتی تھی (اہرام مصر) دھرے رہ گئے{۱۳۷} پھر ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار کروایا تو ایسی قوم کے پاس پہنچے جو بتوں کے آگے سجدہ کرتے تھے۔ کہنے لگے اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایک ایسا خدا بنوا دو جیسے ان کے خدا ہیں۔ موسیٰ نے کہا تم بڑی جاہل قوم ہو{۱۳۸} کہا یہ سب نفرت کے قابل چیزیں ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں باطل ہے{۱۳۹} اور کہا بھلا میں اللہ کے سوا تم کو کوئی دوسرا خدا کیسے دے سکتا ہوں۔ جو جلد ہی تمہیں اہلِ عالم پر فضیلت دینا چاہتا ہے{۱۴۰} اُس نے تم کو آلِ فرعون سے نجات دلائی جو تمہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے۔ تمہارے بیٹے قتل کرتے اور بیٹیاں زندہ رکھتے۔ وہ تمہارے رب کا تم پر عذاب تھا{۱۴۱} پھر ہم نے موسیٰ کو تیس راتوں کے لئے طور پر بلایا اور دس رات اور روک لیا کہ چالیس رات کی میعاد اپنے پالنے والے (اللہ) کے حکم سے پوری کریں۔ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا تم میری قوم پر میری طرف سے نیابت (خلافت) کرو ان کی اصلاح کرتے رہو اور مفسدوں (فسادیوں) کی باتوں میں نہیں آجانا{۱۴۲} اور موسیٰ ہماری میقات (مقرر حاضری) پر آئے اور اپنے پالنے والے (اللہ) سے باتیں کیں تو بولے میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں مجھے خود کو دِکھا۔ اللہ نے کہا تم مجھے نہیں دیکھ سکتے ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھو اگر وہ صحیح سلامت رہا تو تم مجھے بھی دیکھ لو گے پس جب اس کے پالنے والے (اللہ) نے پہاڑ کو اپنا جلوہ دکھایا تو وہ بکھر گیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ پھر اٹھے تو کہا پاک ہے تیری ذات میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں{۱۴۳} ہم نے کہا اے موسی! میں نے تجھے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تمام اہلِ عالم پر فضیلت دی ہے پس جو کچھ ہم نے دیا ہے اسے سنبھال کر رکھنا اور میرا احسان مانتے رہنا{۱۴۴} ہم نے اُس کے لئے تختیوں پر تمام نصیحتیں اور ضروری ہدایتیں لکھ دیں کہ انہیں مضبوطی سے تھامے رہنا (اُن پر عمل کرنا) اور اپنی قوم سے کہنا کہ ان سے اچھی باتیں سیکھتے رہیں۔ میں تم کو جلد ہی (تبلیغ کیلئے) گنہگاروں کی بستیاں دکھائوں گا{۱۴۵} تو دنیا میں ناحق غرور کرنے والوں (یہودیوں) نے ہماری باتیں (حدیثیں) ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ ہماری نشانیاں (معجزے) دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے۔ وہ لوگ سیدھا راستہ دیکھتے تو اُس پر نہیں چلتے اور گمراہی کا دیکھتے تو اس پر چل پڑتے ۔ یہ اس لئے کہ وہ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے تھے اور ان کی طرف سے غافل تھے{۱۴۶} مگر جو لوگ ہماری نشانیوں اور آخرت میں ملاقات کو جھٹلاتے ہیں اُن کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ اُن کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسے کام کریں گے{۱۴۷} اور موسیٰ کی قوم نے اُن کے پیچھے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنوایا جس کے جسم سے آواز نکلتی تھی۔ اگرچہ انہوں نے دیکھا کہ وہ نہ بولتا ہے نہ راہِ ہدایت دِکھاتا ہے۔ اُسے قبول کرلیا کیونکہ وہ ظالم (جاہل) لوگ تھے{۱۴۸} اور جب وہ اُن سے چھن گیا اور ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ بھٹک گئے تھے تو کہنے لگے اگر ہمارا پالنے والا (اللہ) ہم پر رحم نہیں کرے گا اور معاف نہیں کرے گا تو ہم نقصان میں پڑجائیں گے{۱۴۹} اور موسیٰ اپنی قوم کی طرف لوٹے تو وہ غم و غصہ سے بھرے ہوئے تھے۔ بولے تم نے جو کچھ میرے پیچھے بنایا برا ہے۔ تم اپنے پالنے والے (اللہ) کے حکم کا انتظار نہیں کرسکے۔ انہوں نے تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کے بال پکڑ کر کھینچا۔ اُس نے کہا اے ماں جائے تیری قوم نے مجھے بے بس کر دیا بلکہ وہ مجھے قتل کر دیتے پس مجھے میرے دشمنوں کے سامنے شرمندہ نہیں کیجئے۔ نہ مجھے ظالموں میں شمار کیجئے{۱۵۰} پھر موسیٰ نے دُعا کی اے پالنے والے (اللہ) مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں لے لے۔ تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے{۱۵۱} ہم نے کہا جو لوگ بچھڑے کو پوجنے لگے تھے اُن پر اللہ کا غضب ہوگا۔ وہ دنیا کی زندگی میں بھی ذلیل ہوں گے۔ ہم جھوٹ گھڑنے والوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں{۱۵۲} لیکن جو غلط کام کر کے توبہ کرلیں گے اور ایمان لے آئیں گے بلاشبہ تمہارا پالنے والا (اللہ) اس کے بعد بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے{۱۵۳} اور جب موسیٰ کا غصہ کم ہوا تختیاں اٹھالیں۔ اُن کتبوں میں رحمت و ہدایت درج تھی ان لوگوں کے لئے جو اپنے پالنے والے (اللہ) سے ڈرتے ہیں{۱۵۴} پھر موسیٰ نے ہماری میقات (مقرر حاضری) کے لئے اپنی قوم کے ستر آدمی چنے تو ہم نے اُن پر زلزلہ بھیج دیا۔ موسیٰ نے کہا اے پالنے والے (اللہ) تو چاہتا تو ان کو اور مجھے یہاں آنے سے پہلے ہلاک کر دیتا۔ کیا تو ہم کو ہمارے اُن نادان ساتھیوں کی حرکت پر ہلاک کرنا چاہتا ہے۔ بیشک تو ہم کو آزما رہا ہے تاکہ جسے چاہے (اسکے اعمال کے سبب) بھٹکا دے اور جسے چاہے (اسکے اعمال کے سبب) ہدایت دے۔ تو ہی ہمارا ولی (دوست) ہے پس ہمیں بخش دے، ہم پر رحم فرما، تو سب سے اچھا بخشنے والا ہے{۱۵۵} اے پالنے والے (اللہ) ہمارے لئے دنیا میں بھی بھلائیاں لکھ دے اور آخرت میں بھی۔ ہم تجھ سے رجوع کرتے ہیں۔ ہم نے کہا ہم اپنا عذاب جس پر چاہتے ہیں (اسکے اعمال کے سبب) بھیجتے ہیں مگر ہماری رحمت ہر چیز پر محیط ہے۔ اور وہ میں نے اُن کے لئے (رحمت) لکھ دی ہے جو گناہوں سے بچیں گے، زکوٰۃ دیں گے اور ہماری باتوں (حدیثوں) پر ایمان لائیں گے{۱۵۶} اور جو لوگ ہمارے رسول کی پیروی کریں گے جو ہمارا نبی اُمی ہے جس کے بارے میں وہ اپنی توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ جائز کام کرنے کا حکم دیتا ہے اور برے کاموں سے منع کرتا ہے۔ پاک چیزیں حلال کرتا ہے، گندی چیزوں کو حرام بتاتا ہے۔ لوگوں کے گلے سے طوق غلامی اور زنجیروں کا بوجھ اتارتا ہے تو جو لوگ ایمان لائیں گے اس کی رفاقت کریں گے، اُس کی مدد کریں گے اور اس ہدایت (قرآن) کی پیروی کریں گے جو اُس پر اُترتا ہے وہی فلاح پائیں گے{۱۵۷} اِن سے کہو اے لوگو! میں تمہارے پاس اللہ کا رسول بھیجا گیا ہوں۔ اُس کی طرف سے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اس کے سوا کوئی داتا نہیں۔ وہی جلاتا ہے وہی مارتا ہے۔ پس اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو جو نبی اُمی ہے۔ جو لوگ اللہ اور اس کے کلام (حدیث) پر ایمان لائیں گے اور اُس کی پیروی کریں گے وہ ہدایت پائیں گے{۱۵۸} اور موسیٰ کی قوم میں بھی ایسے لوگ ہیں جو سچائی کی راہ دِکھاتے ہیں اور اس کے ساتھ بھی انصاف کرتے ہیں (قرآن کو سچ مانتے ہیں){۱۵۹} ہم نے اُن کے نواسوں کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا تھا اور موسیٰ کو وحی کی تھی کہ اپنی قوم کو پانی پلانے کے لئے اپنی لاٹھی پتھر پر مارو اس سے بارہ چشمے جاری ہوں گے پھر ہر قبیلے کو اُس کا گھاٹ بتا دو۔ اُن پر ہم نے بادلوں کا سایہ رکھا اور من و سلویٰ اتارا کہ ہماری دی ہوئی پاک چیزیں کھائیں۔ اور ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے{۱۶۰} پھر ان سے کہا گیا چلو فلاں بستی میں چل کر آباد ہوجائو اور وہاں جو چاہو کھائو پیو۔ مگر حطۃٌ (بخش دے) کہتے ہوئے اور سجدے کرتے ہوئے دروازے میں داخل ہونا تو اللہ تمہاری خطائیں بخش دے گا اور احسان ماننے والوں کو زیادہ دے گا{۱۶۱} تو ظالموں نے وہ لفظ بدل دیا جو سکھایا گیا تھا تو ہم نے آسمان سے اپنا قہر نازل کیا کیونکہ وہ ظالم تھے{۱۶۲} اور اس بستی والوں کا حال پوچھو جو سمندر کے کنارے آباد تھی۔ اُن کو ہفتے کے دن شکار کھیلنے سے منع کیا گیا مگر ہفتے کے دن وہاں مچھلیاں کثرت سے آتیں اور باقی دن نہیں آتیں ہم ان بدنفسوں (مردہ ضمیروں) کو اسی طرح آزماتے رہے{۱۶۳} اُن سے کہا جاتا کہ تم ان لوگوں سے میل جول کیوں بڑھاتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا ہے، اُن پر عذاب بھیجنے والا ہے۔ تو کہتے ہم چاہتے ہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے اور وہ گناہوں سے بچنے والے بن جائیں{۱۶۴} اس طرح وہ تمام باتیں بھول گئے جو اُن کو سکھائی گئی تھیں۔ تو ہم نے اُن کو بچالیا جو برائی سے روکتے تھے اور ظالموں کو عذاب میں ڈال دیا اُن کی نافرمانی بری تھی{۱۶۵} غرض اُن کو جن باتوں سے روکا گیا وہی کرتے رہے تو ہم نے کہہ دیا جائو ذلیل بندر (بے گھر بے وطن) ہوجائو{۱۶۶} پھر تمہارے پالنے والے (اللہ) نے اُن کو بتا دیا کہ قیامت تک اُن پر ایسے لوگ مسلط رہیں گے جو اُن کو تکلیفیں دیں گے۔ بلاشبہ تمہارا پالنے والا (اللہ) جلد سزا دیتا ہے۔ اگرچہ وہ بڑا بخشنے والا اور رحیم بھی ہے{۱۶۷} پھر ہم نے اُن کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں ساری دنیا میں منتشر کر دیا تو اُن میں بعض نیک لوگ بھی ہیں مگر سب ویسے نہیں۔ اسی لئے ہم اُن کو برائیوں اور بھلائیوں سے آزماتے رہتے ہیں کہ شاید وہ ہم سے رجوع کرلیں{۱۶۸} پھر اُن کے بعد ایسے لوگ اس کتاب کے وارث ہوئے جو دنیا کی معمولی چیزیں بھی چھیننے لگے۔ کہتے کہ ہم کو سب معاف ہے چنانچہ آج بھی کوئی چیز مل جائے تو اٹھا لیتے ہیں گویا ان سے کوئی عہد نہیں لیا گیا تھا کہ کتاب کی رو سے اللہ سے سچ کے سوا کچھ منسوب نہیں کرنا اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے پڑھتے رہنا۔ اور آخرت تو انہی کی اچھی ہے جو گناہوں سے بچتے ہیں۔ تو کیا یہ سمجھتے نہیں{۱۶۹} تو جو لوگ اپنی کتاب کو سنبھالے(توجہ سے پڑھتے اورعمل کرتے) رہیں گے اور صلوٰۃ قائم کریں گے ہم ایسے اصلاح پسند لوگوں کا اجر ضائع نہیں کریں گے{۱۷۰} اور جب ہم نے پہاڑ کو اُن کے اوپر پھاڑ دیا (آتش فشاں) اور وہ آگ اور دھویں کی چھتریں معلوم ہونے لگا تو سمجھے کہ وہ اُن پر آ کر رہے گا۔ ہم نے کہا جو کچھ ہم نے دیا ہے لے لو۔ اور جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ پڑھتے رہو۔ تم گناہوں سے بچنے والے بن جائو گے{۱۷۱} اور جب تمہارے پالنے والے (اللہ) نے اولادِ آدم کی پیٹھ سے اُن کی نسل چلائی تو اُن کو اپنی جانوں کی قسم کھلائی اور پوچھا کیا میں تمہارا پالنے والا نہیں ہوں۔ سب نے کہا ہاں! ہم گواہ ہیں۔ پھر قیامت کے دن یہ کیسے کہہ سکیں گے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا{۱۷۲} یا یہ کہیں کہ شرک (اللہ کا بیٹا، وسیلہ) تو ہمارے باپ دادا نے شروع کیا تھا ہم اُن کی اولاد میں بعد کو آئے تو کیا ہم کو اُن اہلِ باطل کی غلطیوں کی سزا دے گا{۱۷۳} ہم اپنی باتیں (حدیثیں) اسی طرح تفصیل سے سمجھاتے ہیں تاکہ لوگ ہم سے رجوع کریں (اور شرک سے باز آئیں){۱۷۴} اور ان کو اُن لوگوں کا حال سنائو جن کو ہم نے اپنی نشانیاں دیں تو ان سے کترانے لگے اور سرکشی، نافرمانی کرنے والے کے چیلے بن گئے کیونکہ وہ مغرور لوگ تھے{۱۷۵} حالانکہ ہم چاہتے تھے کہ ان کے مرتبے بلند کریں مگر شاید وہ دنیا میں ہمیشہ جینا اور من مانی کرنا چاہتے تھے۔ ان کی مثال کتے کی سی ہے کہ باندھ کر رکھو تو ہانپے اور چھوڑ دو تو ہانپتا رہے۔ تو یہ مثال اس قوم کی ہے جس نے ہماری آیتوں (حدیثوں) کو جھٹلایا۔ تو یہ قصہ بیان کرو شاید غور کریں{۱۷۶} ہاں ہمارے کلام کو جھٹلانے والوں کی مثال ہی بری ہے۔ یہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں{۱۷۷} جولوگ اللہ کی ہدایت سمجھتے ہیں وہی ہدایت پاتے ہیں اور جو لوگ گمراہی اختیار کرتے ہیںوہی نقصان اٹھائیں گے{۱۷۸} ہم نے ایسے ہی انسانوں اور جنوں کے لئے جہنم تیار کی ہے جن کے دل ہیں مگر سوچتے نہیں، آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں اور کان ہیں تو ان سے سنتے نہیں۔ گویا وہ چوپائے ہیں بلکہ ان سے زیادہ ناسمجھ کیونکہ یہ غافل (جاہل) لوگ ہیں{۱۷۹} اور اللہ کے تو اچھے اچھے نام ہیں پس اُن ناموں سے اس کو یاد کرو۔ جو لوگ اُس کے مختلف ناموں سے انکار کرتے ہیں اُن سے قطع تعلق کرو۔ ان کو ان کے کئے کی سزا ملے گی{۱۸۰} اور وہ لوگ بھی ہماری مخلوق ہیں جو سچ کا راستہ دِکھاتے ہیں اور سچ کے ساتھ انصاف کرتے ہیں{۱۸۱} اور وہ بھی جو ہمارے کلام کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو اس طرح پکڑیں گے کہ انہیں خبر تک نہیں ہوگی{۱۸۲} میں ان کو مہلت دیتا ہوں مگر میری گرفت سخت ہوگی{۱۸۳} یہ غور کیوں نہیں کرتے۔ ان کے نبی پر کوئی جن نہیں آتا۔ وہ تمہارے ہادی اور رہبر ہیں{۱۸۴} آسمانوں اور زمین کی مخلوق کو دیکھو اور ان چیزوں کو جو اللہ نے بنائی ہیں۔ تم کیا جانو اُن کا وقت قریب ہی آگیا ہو۔ پھر اس کے بعد یہ کس بات (حَدِیْثٍ) پر ایمان لائیں گے{۱۸۵} جولوگ خودگمراہی اختیار کریںانہیں کون ہدایت دے سکتا ہے ایسے لوگوں کو اللہ بھی چھوڑ دیتا ہے کہ اپنی جہالت میں بھٹکتے پھریں{۱۸۶} پوچھتے ہیں قیامت کب آرہی ہے ان سے کہو اس کا علم تو اللہ کو ہے۔ اُس کے مقرر کئے ہوئے وقت کو بتانے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ مگر وہ آسمانوں اور زمین پر ایک بھاری وقت ہوگا اور وہ تم پر اچانک آجائے گا۔ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم اُس وقت سے واقف ہو۔ کہو نہیں۔ اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے{۱۸۷} اور کہو میں کسی کے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا سوائے اُس کے جو اللہ چاہے۔ اگر میں غیب کا علم جانتا تو بہت سے فائدے اٹھا لیتا اور مجھے کبھی نقصان نہیں ہوتا۔ میں تو صرف ایمان لانے والوں کو چونکانے اورخوشخبری دینے والا ہوں{۱۸۸} لوگو! اللہ نے تمہیں ایک جان سے بنایا ہے تمہارے جوڑے بنائے جن سے تسکین حاصل کر سکو تو جب تم ملتے ہو تو ایک ہلکا سا بوجھ ہوجاتا ہے جسے لئے وہ پھرتے ہیں اور جب بھاری ہوجاتا ہے تو دونوں اپنے پالنے والے (اللہ) سے دعا کرتے ہو کہ صحیح سالم اولاد ملی تو ہم احسان ماننے والے ہوں گے{۱۸۹} مگر جب وہ صحیح سالم ہوجاتا ہے تو اسے اپنے کسی شریک (اولیائ، دیوی، دیوتا وغیرہ) کی دین بتاتے ہیں حالانکہ اللہ ایسے شریکوں سے پاک ہے{۱۹۰} اور وہ ایسوں کو ہمارا شریک (مورتیاں، وسیلہ) بناتے ہیں جو کچھ بنا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود بنائے گئے تھے{۱۹۱} وہ کسی کی مدد نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود اپنی مدد بھی نہیں کرسکتے{۱۹۲} تم ان کو ہدایت کی طرف بلائو تو وہ تمہاری آواز نہیں سن سکیں یعنی تم ان کو پکارو یا نہیں پکارو برابر ہے وہ تمہاری باتیں نہیں سن سکتے{۱۹۳} اور تم اللہ کی جگہ جن (غوث، داتا، خواجہ وغیرہ) کو پکارتے ہو وہ تمہارے جیسے ہمارے بندے تھے۔ اچھا تم اُن کو پکارو اگر یہ سچے ہیں تو جواب دیں{۱۹۴} کیا اُن کے پائوں سلامت ہیں جن سے چل سکیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑ سکیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں۔ کہہ دو اپنے شرکاء (داتا، بزرگ، دیوتا وغیرہ) سے دعا کرو وہ میرا کچھ بگاڑ لیں اور مجھے مہلت بھی نہیں دیں (یقینا وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ){۱۹۵} میرا ولی(دوست) تو صرف اللہ ہے جو یہ کتاب اُتارتا ہے وہی نیک لوگوں کا محافظ ہے{۱۹۶} اور جن چیزوں سے تم اللہ کے سوا دعائیں مانگتے ہو وہ تمہاری مدد نہیں کرسکتیں نہ خود اپنی مدد کرسکتے ہیں{۱۹۷} مشرکوں (بیٹا، وسیلہ بنانے والوں) کو ہدایت کی طرف بلائو تو سنتے نہیں۔ تمہاری طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں مگر کچھ سمجھائی نہیں دیتا{۱۹۸} پس اُن سے درگزر کرو اور اچھے کام کرنے کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں کے منہ نہیں لگو{۱۹۹} اور تمہارے دل میں کوئی سرکشی، نافرمانی کرنے کا خیال آئے تو اللہ سے پناہ مانگ لیا کرو وہ بڑا سننے اور جاننے والا ہے{۲۰۰} اور دوسرے نیک بندے بھی اگر ان کے دل میں سرکشی، نافرمانی کرنے کے خیالات آئیں تو اللہ کو یاد کر لیا کریں۔ اس سے وہ چونک جائیں گے{۲۰۱} اور ان کے اپنے بھائی اُن کو گمراہی (شرک) کی طرف بلائیں تو وہ اُن کی پروا نہیں کریں{۲۰۲} جب تمہارے پاس کوئی نئی وحی نہیں آتی توکہتے ہیں تم اپنی طرف سے کچھ بنالو۔ اُن سے کہو میں تو وحیٔ اللہ کا تابع ہوں جو میرے مالک کے پاس سے آتی ہے اور یقینا وہ تمہارے پالنے والے (اللہ) کی طرف سے آنکھیں کھولنے، ہدایت دینے اور تم پر مہربانی کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ جو اہل ایمان کے لئے آتی ہیں{۲۰۳} اور جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے{۲۰۴} اور اپنے پالنے والے (اللہ) کو صبح و شام دل میں عاجزی اور خوف سے اور خاموشی کے ساتھ یاد کرتے رہو۔ اس سے کبھی غافل نہیں ہونا{۲۰۵} جو لوگ تمہارے پالنے والے (اللہ) سے قریب ہیں وہ اپنی بندگی پر فخر و تکبر نہیں کرتے۔ وہ اس کی حمد و ثنا کی تسبیح اور سجدے کرتے رہتے ہیں{۲۰۶}۔
SYED TALIB ALI WELFARE TRUST
Online Account No.: PK27 UNIL 0109 0002 3125 1213 | Title: MUHAMMAD ALI | Bank: UBL | Branch Code: 0395 | New Karachi | Pakistan.
Home
Trust
Quran
Books
Download Fonts
Contact Us
SYED TALIB ALI WELFARE TRUST
© Copyright SYED TALIB ALI WELFARE TRUST Rights Reserved
Develop by: SYED MOHSIN ALI
Home | Trust | Quran| Books| Image Gallery | Download Fonts | Contact Us