Department of ...
Employment
Education
Help Depart
Medical
Ambulance Service
Activities
Marriage Bureau Management
SYED
TALIB ALI WELFARE TRUST
is distributing monthly ration/groceries,
household equipment, wheel chair etc. in special persons, orphaned
children and widows for last 7 year.
So please appeal to you, submit your donation in Trust Online Account No.: PK27 UNIL 0109 0002 3125 1213 | Title: MUHAMMAD ALI | Bank: UBL | Branch Code: 0395 | New Karachi | Pakistan.
سارے رسول اللہ کے سوا کسی اور کے آگے سر نہیں جھکاتے تھے
سچے عاشق رسول اللہ کے سوا کسی زندہ یا مردہ کے آگے سر نہیں جھکاتےاسلام ایک فکرانگیز لفظ ہے۔ اس لفظ سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟ اس کے کیا معنی ہیں؟… لفظ اسلام ’’اسم‘‘ ہے۔ یہ ’’اَسْلَمَ، اَسْلَمْتُ، اَسْلِمُوْا‘‘ کا مصدر ہے۔ اس کے لغوی معنی اللہ کے آگے سر جھکانا، ان دیکھے اللہ کو تسلیم کرنا، اللہ کی فرمانبرداری کرنا، اللہ کی بندگی کرنا ہے۔
مزید سمجھنے کے لیے دوستو! کلام پاک کا مطالعہ ضروری ہے کیونکہ درج بالا الفاظ کلام پاک کی مختلف آیات میں آئے ہیں۔ حکم اللہ ہوا کہ ’’اے ابراہیم اسلام قبول کرو یعنی میری بندگی تسلیم کرو اور میرے آگے سر جھکائو‘‘۔ ابراہیم نے کہا ’’اے جہانوں کے پالنے والے (اللہ) میں تیری بندگی تسلیم کرتا ہوں یعنی اسلام قبول کرتا ہوں‘‘۔ مزید اللہ نے فرمایا کہ سورج کی پوجا کرنے والی ملکہ نے کہا ’’میں سلیمان کے ہمراہ اسلام قبول کرتی ہوں یعنی اللہ کے آگے سرجھکاتی ہوں‘‘۔ پھر اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اللہ کے سوا کسی اور کے آگے سر جھکائے گا وہ اللہ کے حضور ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا بلکہ وہ نقصان اٹھائے گا یعنی جہنم میں ڈالا جائے گا‘‘۔
دوستو! اللہ کے فرمان کو اس کے سارے نبی، رسول اور پیغمبروں نے تسلیم کیا اور دُکھ میں، سکھ میں اور کڑی سے کڑی آزمائش میں سختی سے عمل پیرا رہے۔ وہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہیں کرتے تھے اللہ کے سوا کسی اور کے آگے سر نہیں جھکاتے تھے۔ خود کو اور کسی کو اللہ کا بیٹا اور وسیلہ نہیں مانتے تھے۔ کسی سے فریاد نہیں کرتے تھے بلکہ جو کچھ مانگتے تھے اللہ سے مانگتے تھے کیونکہ انہیں پختہ یقین تھا کہ اللہ کے سوا کوئی خدا، کوئی داتا، کوئی ولی، کوئی مشکل کشائ، اور کوئی مددگار نہیں ہے۔
اللہ کے سارے نبی، رسول، پیغمبروں کا ایک ہی کلمہ تھا لا الہ الا اللہ ( کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں) اور یہی تعلیمات اپنی پوری قوم کو دیتے رہے۔ پس اسی کی بندگی کرو، کسی اور کے آگے سر نہیں جھکائو… آئیے ہم عاشقِ رسول اپنا محاسبہ خود کریں۔ کیا ہم سچے عاشق رسول کی طرح اللہ کے فرمان اور رسول کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں پا پھر جاہلوں، گمراہوں اور نافرمانوں کی طرح اپنے باپ دادا کی تقلید کیلئے مردہ یا زندہ کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ اللہ کے سوا کسی اور کو وسیلہ مان کر منت و مرادیں مانگتے ہیں… سوچئے اور غور کیجئے… درج ذیل آیات پڑھ کر اپنا محاسبہ خود کیجئے۔
بس یاد رکھو! مسلمانوں کے لیے قرآن رحمۃ للمؤمنین ہے۔
بیشک قرآن میں بعض قصے بنی اسرائیل کے مطابق ہیں اور بعض مختلف{سورہ ۲۷/ آیت ۷۶} اور یہی چیز اہلِ ایمان کے لئے باعثِ ہدایت و رحمت ہے{۲۷/۷۷} بلاشبہ تمہارا پالنے والا (اللہ) حساب کے دن فیصلہ کرے گا{۲۷/۷۸} پس تم اللہ پر بھروسہ رکھو تم ہی سچائی پر ہو{۲۷/۷۹} تم مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ نہ بہروں کو سنا سکتے ہوجب وہ پیٹھ پھیر کر جاتے ہیں{۲۷/۸۰} اور تم اندھوں کو ان کی تاریکی سے نہیں نکال سکتے۔ تم انہیں کو سنا سکتے ہو جو سنتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں وہی مسلم (فرمانبردار) ہیں{۲۷/۸۱}۔
ظالم لوگ اللہ کی ہدایت مانتے ہی نہیں
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ کا الزام لگائے۔ رسول تو صرف اسلام (اَن دیکھے اللہ کی فرمانبرداری) کی دعوت دیتے ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ظالم لوگ اللہ کی ہدایت مانتے ہی نہیں{۶۱/۷}۔
بس اللہ کے آگے جھک جائو اور شرپسندوں کی پیروی مت کرو
مگر بہت سے ایسے ہیں جو اللہ کو خوش رکھنے کے لئے اپنی جانیں بیچ دیتے ہیں تو اللہ اپنے ایسے بندوں پر فخر (رَئُوْفٌ) کرتا ہے{۲/۲۰۷} تو اے یقین رکھنے والو! (فِیْ السَّلْمِ) پس اللہ کے آگے جھک جائو اور شرپسندوں،نافرمانوں کے پیچھے نہیں چلو وہ تمہارے دشمن ہیں{۲/۲۰۸}۔
جنت تو اسلام قبول کرنے والوں کیلئے ہے نہ کہ یہودی اور عیسائیوں کیلئے
(یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی جنت میں نہیں جائے گا یہ اُن کی خوش فہمی ہے کہو اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو{۲/۱۱۱} حالانکہ جو بھی (اَسْلَمَ) اسلام قبول کرلے (اللہ پر یقین رکھے) اور وہ نیک بھی ہو اُس کا اجر اُس کے پالنے والے(اللہ)کے پاس ملے گا۔ ایسے لوگوں کو کوئی خوف ہوگا نہ غم{۲/۱۱۲} یہودی کہتے ہیں عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں ہے اور عیسائی کہتے ہیں یہود کچھ نہیں ہیں۔ حالانکہ وہ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو کچھ نہیں جانتے (مشرک) اِن دونوں کے بارے میں یہی کہتے ہیں۔ تو اللہ قیامت کے دن اِن کا فیصلہ کرے گا اور بتلائے گا کہ اصل اختلاف کیا تھا{۲/۱۱۳}۔
حکمِ اللہ! اے ابراہیم (علیہ السلام) اسلام قبول کرو
اے پالنے والے(اللہ)! ہم کو (مُسْلِمَیْنِ) اپنا فرمانبردار رکھنا اور ہماری اولاد کو ایسی اُمت بنانا جو تیری اطاعت گزار اور فرمانبردار ہو اور ہم کو اپنی بندگی کے طریقے سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ تُو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے{۲/۱۲۸} اور اے مالک ان میں ایک رسول بھیجنا جو تیرا کلام (تیری حدیثیں) پڑھ کر سنائے اور اُن کو کتاب و حکمت کی باتیں سکھائے۔ اُن کو پاک صاف بنائے۔ بلاشبہ تو ہی عزت و حکمت کا مالک ہے{۲/۱۲۹} پھر ابراہیم کے عقائد سے کون انکار کرسکتا ہے سوائے بے ضمیروں کے۔ ہم نے (ابراہیم کو) دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیک لوگوں کے ساتھ ہوگا{۲/۱۳۰} اُس کے پالنے والے(اللہ)نے اُس سے کہا (اَسْلِمْ) میری بندگی تسلیم کرو (یعنی اسلام قبول کرو) تو اُس نے کہا میں تمام جہانوں کے پالنے والے (اللہ) کی (اَسْلَمْتُ) بندگی تسلیم کرتا ہوں (اسلام قبول کرتا ہوں){۲/۱۳۱} اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں اور یعقوب (پوتے) کو وصیت کی کہ اے بیٹو بلاشبہ اللہ نے تمہارے لئے یہی ’’اسلام‘‘ کا دین چنا ہے پس جب مرو تو مسلمان(اللہ کے فرمانبردار) ہی مرنا{۲/۱۳۲}۔
اہل کتاب! اگر تم اسلام قبول کرلو تو ہدایت پاجائو گے
اللہ گواہی دیتا ہے کہ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور اس کے فرشتے اور تمام ذی علم لوگ انصاف (یعنی اللہ کی گواہی) پر قائم ہیں۔ وہ بھی (یقین سے کہتے ہیں کہ) اللہ کے سوا کوئی پوجنے کے لائق نہیں ہے۔ اللہ ہی عزت و حکمت کا دینے والا مالک ہے{۳/۱۸} یقینا اللہ کے پاس دین سے مراد اسلام (اَن دیکھے مالک کے آگے سرجھکا دینا) ہے۔ اہلِ کتاب نے اس حقیقت سے واقف ہوجانے کے بعد اختلاف شروع کیا ہے وہ آپس کی ضد کی وجہ سے ہے۔ جو اللہ کے کلام کا انکار کرے تو اللہ جلد حساب لینے والا ہے{۳/۱۹} جو تم سے حجت کرے اس سے کہہ دو میں اور میرے ساتھی (اَسْلَمْتُ) اسلام قبول کرچکے ہیں (یعنی اللہ کے آگے سرجھکا چکے ہیں)۔ اہلِ کتاب اور دوسرے دیہاتیوں سے پوچھو (اَسْلَمْتُمْ) کیا تم سر نہیں جھکائو گے (یعنی تسلیم نہیں کروگے)۔ اگر تم سب (اَسْلَمُوْا) ایک اللہ کے آگے جھک جائو تو ہدایت پا جائو گے۔ اور نافرمانی کرو گے تو مجھ پر تو صرف سمجھانے کی ذمہ داری ہے۔ اور اللہ اپنے بندوں کو دیکھتا رہتا ہے{۳/۲۰}۔
جو دین اسلام کے سوا کسی اور دین کی خواہش کرے گا وہ نقصان اٹھائے گا
اللہ نے اپنے رسولوں سے عہد لیا تھا کہ میں تمہیں کتاب و حکمت (دانائی) دوں گا۔ تو جب تمہارے پاس وحی لانے والا (نبی) آئے اور وہ تمہاری کتاب کی بھی تصدیق کرے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا۔ اور پوچھا تھا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو اور مجھے اپنا ضامن بناتے ہو تو بولے ہم اقرار کرتے ہیں۔ حکم ہوا کہ شہادت(گواہی ) دو اور میں تمہارے ساتھ شہادت(گواہی ) دیتا ہوں{۳/۸۱} اس کے بعد اگر کوئی اُس سے روگردانی کرے تو وہ فاسقوں میں ہوگا{۳/۸۲} تو کیا یہ اللہ کے دین (سر تسلیم خم کرنے) کے سوا کسی اور دین کے طالب ہیں۔ حالانکہ اللہ کو (اَسْلَمَ) تسلیم کرنے والی تو آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوق ہے۔ جو خوشی یا ناخوشی سے اُسی کی طرف رجوع کرتی ہے{۳/۸۳} کہو ہم اللہ پر ایمان (یقین) رکھتے ہیں اور اُس پر بھی جو ہم پر (قرآن) نازل ہوا ہے۔ اور جو ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق و یعقوب اور اُس کے نواسوں اور موسیٰ اور عیسیٰ اور اللہ کے دوسرے رسولوں پر اُترا تھا۔ اور اُن میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ ہم اُسی اللہ کو تسلیم کرنے والے (مسلمین) ہیں{۳/۸۴} اور جو اس دین اسلام (اَن دیکھے مالک کے آگے سر جھکانے) کے سوا کسی اور دین کی خواہش کرے گا وہ (اللہ کے حضور) قابلِ قبول نہیں ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان اُٹھانے والا ہوگا{۳/۸۵}۔
اس شخص سے اچھا کون جو اللہ کے سوا کسی اور کے آگے سر نہیں جھکاتا
اور اس سے اچھا دین کس کا ہوگا (اَسْلَمَ) جو اللہ کے آگے سر جھکائے (یعنی اسلام قبول کرے) اور اللہ کا حکم مانے اور نیک کام کرے۔ ابراہیم بھی ایک (اللہ کے آگے سر جھکانے والے) مذہب کی پیروی کرتے تھے۔ تو اللہ نے ابراہیم کو اپنا (خلیل) دوست بنالیا{۴/۱۲۵}۔
اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا ولی کیسے مان لوں جبکہ حکم ہے اسلام قبول کرو
کہو میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا ولی کیسے مان لوں جس نے زمین اور آسمان بنائے ہیں۔ وہی سب کو روزی دیتا ہے اور اُسے کوئی روزی نہیں دیتا۔ اور کہو مجھے حکم ملا ہے کہ میں سب سے پہلا (اَسْلَمَ) اَن دیکھے اللہ کے آگے سرجھکانے والا بنوں اور مشرکوں میں شامل نہیں ہوں{۶/۱۴} اور کہو مجھے منع کیا گیا ہے ان کی بندگی سے جنہیں تم اپنی منتوں، مرادوں کے لئے اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ میرے پاس پالنے والے (اللہ) کا کلام آتا ہے اور مجھے حکم ہوا ہے صرف تمام جہانوں کے پالنے والے (اللہ )کے (اُسْلِمَ) آگے سر جھکائوں (یعنی اسلام قبول کروں){۴۰/۶۶}۔
تمہارا خدا صرف اللہ ہے اسی کی بندگی کرو
ہم نے ہر امت کے لئے مناسک (رسومات) کے طریقے مقرر کئے ہیں۔ پس جو جانور اللہ دے اس کو اللہ کے نام سے ذبح کرو۔ تمہار۱ خدا صرف اللہ ہے جو ایک ہے (اَسْلِمُوْا) اسی کی بندگی کرو اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو{۲۲/۳۴} اللہ کا ذکر سن کر ان کے دل روشن ہوجاتے ہیں وہ مصیبت کے وقت محنت و برداشت کرتے ہیں۔ صلوٰۃ قائم کرتے اور ہمارے دئیے ہوئے مال سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں{۲۲/۳۵}۔
سورج پرست ملکہ نے کہا میں اسلام قبول کرتی ہوں
سلیمان نے اسے اللہ کے سوا کسی اور کو پوجنے سے منع کیا کیونکہ وہ کافروں کی قوم سے تھی{۲۷/۴۳} پھر کہا (ملکہ) محل میں چلئے۔ اس نے فرش دیکھا تو حوض سمجھا اور اپنی پنڈلیاں کھول لیں۔ اس سے کہا گیا یہ شیشے کا فرش ہے۔ بولی اے پالنے والے (اللہ) میں اپنے نفس پر ظلم کرتی رہی۔ میں سلیمان کے ساتھ (اَسْلَمْتُ) اللہ کے آگے سر جھکاتی ہوں (یعنی اسلام قبول کرتی ہوں) جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے{۲۷/۴۴}۔
ابراہیم علیہ السلام اور اس کے بیٹے کی کڑی آزمائش
پھر دعا کی اے پالنے والے (اللہ) مجھ کو کچھ نیک ساتھی دے{۳۷/۱۰۰} تو ہم نے اسے ایک نرم دل بیٹے کی خوشخبری دی{۳۷/۱۰۱} جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے کے لائق ہوا تو باپ نے کہا بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں۔ تم بھی دیکھو کیا دیکھتے ہو۔ بولے آپ کو جو حکم ملا ہے وہی کیجئے۔ ان شاء اللہ مجھے متحمل پائیں گے{۳۷/۱۰۲} اس طرح دونوں نے (اَسْلَمَا) سرتسلیم خم کر دیا (یعنی اللہ کی فرمانبرداری کا ثبوت دے دیا)۔ اور اسے پیشانی کے بل لٹا دیا{۳۷/۱۰۳} تو ہم نے آواز دی اے ابراہیم{۳۷/۱۰۴} تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ ہم نیک لوگوں کو اسی طرح آزماتے ہیں{۳۷/۱۰۵} بیشک یہ بڑی اور کھلی آزمائش تھی{۳۷/۱۰۶} اس طرح قربانی پیش کرنے کے بدلے میں ہم نے (ابراہیم کو) بڑا مرتبہ دیا{۳۷/۱۰۷} اور آنے والوں میں اُن کی یاد چھوڑ دی{۳۷/۱۰۸} تو ابراہیم پر سلام{۳۷/۱۰۹} ہم نیک بندوں کو اسی طرح نوازتے ہیں{۳۷/۱۱۰} بلاشبہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے{۳۷/۱۱۱}۔
صرف اسلام قبول کرو اور قرآن کی پیروی کرو قبل اس کے عذاب آجائے
پس اپنے پالنے والے (اللہ) سے عاجزی کرو (اَسْلِمُوا) اسلام قبول کرو (یعنی اس کی فرمانبرداری کرو)۔ قبل اس کے کہ عذاب آجائے اور پھر کوئی سفارشی اور حمایتی نہیں ملے{۳۹/۵۴} اس بہترین کلام (قرآن) کی پیروی کرو جو تم پر تمہارے پالنے والے (اللہ) کی طرف سے اُتارا جاتا ہے۔ قبل اس کے کہ ناگہاں عذاب آجائے اور تم بے خبر رہو{۳۹/۵۵}۔
صرف یہ کہنا کہ ہم نے اسلام قبول کرلیا کافی نہیں
دیہاتی کہتے ہیں ہم یقین کرتے ہیں۔ ان سے کہو تم یقین کرنا کیا جانو۔ ہاں کہو کہ (اَسْلَمْنَا) ہم نے اسلام قبول کیا ہے۔ ابھی یقین (ایمان) تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ ہاں اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہے تو اللہ تمہارے اعمال کا پورا صلہ دے گا۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے{۴۹/۱۴} مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر یقین کرتے ہیں پھر کسی شک و شبہ میں نہیں پڑے۔ اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے کوشش کرتے رہیں یہی لوگ یقین (ایمان) کے سچے ہیں{۴۹/۱۵} ان سے پوچھو کیا تم اللہ کو دینداری جتلاتے ہو۔ اللہ تو آسمانوں اور زمین کے اندر کی باتیں بھی جانتا ہے اللہ ہر چیز سے واقف ہے{۴۹/۱۶} بعض لوگ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ (اَسْلَمُوا) مسلمان (اللہ کے فرمانبردار) ہوگئے ہیں۔ ان سے کہو مجھ پر (اِسْلَامَکُمْ) اپنے اسلام (قبول کرنے) کا احسان نہیں جتائو۔ بلکہ اللہ کا احسان ہے جس نے تمہیں ہدایت دی اور یقین (ایمان) کی نعمت بخشی۔ اگر واقعی تم سچے مسلمان ہوچکے ہو تو{۴۹/۱۷} بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی باتیں بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ دیکھتا ہے{۴۹/۱۸}۔
جو جنات اسلام قبول کرتے ہیں وہ راستی پر ہیں
(جنات بولے) ہم نے ہدایت کی کتاب سن لی اور اس پر ایمان (یقین) لاتے ہیں۔ کیونکہ جو اللہ پر ایمان (یقین) لاتا ہے۔ اس کو نہ نقصان کا خوف رہتا ہے نہ ظلم کا{۷۲/۱۳} ہم میں بعض مسلمان (اللہ کے فرمانبردار) ہیں اور بعض نافرمان ہیں۔ (اَسْلَمَ) پس جو اسلام قبول کرتے ہیں (اللہ کے آگے سر جھکاتے ہیں) وہ آزاد ہیں اور راستی پر ہیں{۷۲/۱۴} اور جو گنہگار ہیں وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے{۷۲/۱۵}۔وَمَا عَلَیْْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ
اور ہمارے ذمہ صرف اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے{۳۶/۱۷}۔سارے نبی، رسول اور پیغمبر نہ یہودی تھے نہ عیسائی بلکہ مسلم تھے
سچے عاشق رسول فرقہ، مسلک، مذہب، جماعت نہیں بناتے
بلکہ خود مسلم بن جاتے ہیں۔ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم سب کی زندگی میں لفظ مسلم کی کیا اہمیت ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں اور اس سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے۔ لفظ مسلم کے لغوی معنی تسلیم کرنا، فرمانبرداری کرنا ہے۔
مسلم لفظ کو مزید سمجھنے کیلئے دوستو! کلام پاک کا مطالعہ ضروری ہے کیونکہ لفظ مسلم، مسلمو اور مسلمین کلام پاک کی مختلف آیات میں آیا ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ ’’اے نوح مسلم رہو‘‘ یعنی اللہ کو تسلیم کرنے والے، اللہ کے فرمانبردار رہو۔ اسی کتاب میں فرمانِ اللہ ہے کہ بنی نوع انسان کے امام ابراہیم علیہ السلام، ان کے بیٹے، اسمٰعیل علیہ السلام یوسف علیہ السلام دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ہمیں مسلم جماعت بنا دے اور مسلم (اپنا فرمانبردار) ہی رکھنا اور جب مریں تو مسلمان (تیرے فرمانبردار) ہی مریں۔ اور نیک لوگوں میں شامل کرنا۔
بس یہی تعلیم اللہ کے پیغمبر، رسول اور نبی اپنے بیٹوں، پوتوں اور اپنی قوم کے خاص و عام لوگوں کو دیتے رہے کہ سچے مسلم (اللہ کے فرمانبردار) بنو۔ اللہ پر بھروسہ کرو اسی سے مدد و مرادیں مانگو، اسی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ کے سوا کوئی خدا، کوئی داتا، کوئی ولی اور کوئی مددگار نہیں۔
اللہ کے رسول، نبی اور پیغمبروں کی تعلیمات اور دعائوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جتنے بھی رسول، پیغمبر اور نبی آئے وہ نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ سب کے سب سچے اور پکے مسلمان تھے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے والے سچے عاشق رسول، فرقہ، مسلک، مذہب اور جماعت نہیں بناتے تھے بلکہ خود مسلم بن جاتے تھے اور مسلم کہلانے میں بڑا فخر محسوس کرتے تھے۔
سوچئے، غور کیجئے اور اپنا محاسبہ خود کیجئے… کہ ہم کیسے اللہ کے بندے اور کیسے عاشق رسول ہیں جو نہ اللہ کا حکم تسلیم کرتے ہیں نہ رسول کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ بلکہ مختلف فرقے، مذہب، مسلک، جماعتیں اور تنظیمیں بنا کر خود بھی بھٹکتے پھر رہے ہیں اور اور دوسروں کو بھی بھٹکا رہے ہیں اور سیدھے سادھے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روک رہے ہیں… اور اس سے بھی انتہائی غور طلب بات یہ ہے کہ اپنی پہچان ’’مسلم‘‘ چھوڑ کر فرقہ وارانہ نام سے اپنی پہچان کرانے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں… جبکہ فرمانِ اللہ ہے کہ عیسیٰ کے ساتھی بڑے فخر سے کہہ رہے ہیں ’’اے عیسیٰ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آپ گواہ رہیں ہم مسلمان ہیں‘‘۔
اس تمہیدی گفتگو کے بعد آپ کی معلومات کے لیے کلام پاک کی وہ آیات جن میں لفظ ’’مسلم، مسلمو اور مسلمین‘‘ آیا ہے پیش خدمت ہیں۔
_____________________________
محمدﷺ پر اترنے والی کتاب (بشریٰ للمسلمین) مسلمانوں کیلئے خوشخبری ہے
جس دن تمام امتیں اپنے اپنے گواہوں (پیروں، اماموں) کے ساتھ اٹھائی جائیں گی تو ہم تم کو ان سب پر گواہ کریں گے۔ اسی لیے (اے محمدﷺ) تم پر ایسی کتاب اتاری ہے جو ہر چیز کو (مفصل) بیان کرتی ہے اور یہ اللہ کے فرمانبردار (مسلمین) کے لیے ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے{سورہ ۱۶/ آیت ۸۹}۔
اللہ کی نصیحت جب مرنا تو مسلمان (میرے فرمانبردار) ہی مرنا
اے ایمان لانے والو! اللہ سے محبت کرو ایسی محبت کرو کہ جب مرو تو مسلمان (اللہ کے فرمانبردار) ہی مرنا{۳/۱۰۲}۔
اس سے اچھا کون جو اچھے کام کرے اور دوسروں کو اللہ کی طرف بلائے
اور اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص اللہ کی بندگی کی طرف بلائے اور خود بھی اچھے کام کرے اور کہے کہ میں اللہ کے ماننے والوں میں سے (مسلمان) ہوں{۴۱/۳۳}۔
نوح علیہ السلام نے کہا مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں مسلم رہوں
اور ان کو نوح کا قصہ سنائو اس نے اپنی قوم سے کہا اے لوگو! تم کو میرا یہاں رہنا اور اللہ کا کلام (حدیثیں) سنا کر نصیحت کرنا گراں گزرتا ہے تو میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں۔ تم اپنے شرکاء (خدائوں، دیوتائوں وغیرہ) کے ساتھ مل کر سازش کرو اور اسے کسی سے پوشیدہ نہیں رکھو اور میرے ساتھ کر گزرو کوئی پس و پیش نہیں کرو{۱۰/۷۱} تم مجھ سے منہ موڑتے ہو حالانکہ میں تم سے کچھ مانگنے نہیں آتا۔ میرا اجر تو اللہ دے گا جس نے مجھے حکم دیا ہے کہ مسلم (اللہ کو تسلیم کرنے والا) رہوں{۱۰/۷۲} تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا اور ہم نے اس کو مع اس کے ساتھیوں کے کشتی پر بٹھا کر بچا لیا اور خلایف (بچ رہنے والے) بنا دیا۔ اور اپنے کلام (حدیثوں) کو جھٹلانے والوں کو غرق کر دیا۔ پھر دیکھو نصیحت نہیں ماننے والوں کا حشر کیا ہوا{۱۰/۷۳}۔
امام ابراہیم علیہ السلام اور اسمٰعیل علیہ السلام کی دعا ’’اے اللہ ہمیں مسلمان رکھنا‘‘
اے پالنے والے(اللہ)! ہم کو (مسلمین) اپنا فرمانبردار رکھنا اور ہماری اولاد کو ایسی اُمت بنانا جو تیری اطاعت گزار اور فرمانبردار ہو اور ہم کو اپنی بندگی کے طریقے سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ تُو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے{۲/۱۲۸}۔
یوسف علیہ السلام کی دعا ’’اے اللہ تو مجھے مسلمان اٹھانا
پھر جب وہ سب یوسف کے شہر میں آئے تو وہ اپنے والدین کو خوش آمدید کہنے آیا اور کہا مصر میں آپ ان شاء اللہ امن کے ساتھ داخل ہوں گے{۱۲/۹۹} پھر اپنے باپ کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا اور سب نے اس کے سامنے سر جھکا دیا۔ تو اس نے کہا اباجان یہ ہے میرے اس خواب کی تعبیر جسے میرے پالنے والے (اللہ) نے سچ کر دکھایا۔ اس کا احسان ہے اس نے مجھے قید سے نکالا اور آپ کو صحرا سے لا کر ملایا۔ ہرچند سرکشی نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فتنہ ڈال دیا تھا۔ بلاشبہ میرا پالنے والا (اللہ) جس پر چاہتا ہے(اسکے اعمال کے سبب ) کرم کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا صاحبِ حکمت ہے{۱۲/۱۰۰} اے پالنے والے (اللہ) تو نے مجھے حکومت دی ہے مجھے باتوں کی باریکیاں (تاویل احادیث) سمجھنے کا علم دیا۔ تو ہی آسمانوں اور زمین کو بنانے والا ہے۔ تو ہی دنیا و آخرت میں ہمارا مالک (مولا) ہے مجھے مسلم (اللہ کا فرمانبردار) اٹھانا اور نیکوں میں شامل کرنا{۱۲/۱۰۱}۔
بیٹوں اور پوتے کو امام ابراہیم علیہ السلام کی وصیت ’’جب مرو تو مسلم مرنا‘‘۔
اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں اور یعقوب (پوتے) کو وصیت کی کہ اے بیٹو بلاشبہ اللہ نے تمہارے لئے یہی ’’اسلام‘‘ کا دین چنا ہے پس جب مرو تو مسلمان(اللہ کے فرمانبردار) ہی مرنا{۲/۱۳۲}۔
امام ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ عیسائی، وہ مسلم تھے
تم سمجھتے ہو کہ ابراہیم و اسمٰعیل و یعقوب اور اُن کے نواسے یہودی یا عیسائی تھے۔ کہو کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ۔ اس سے بڑھ کر ظالم (جاہل) کون ہوگا جو اللہ کی شہادت کو اپنی کتابوں میں چھپائے۔ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے{۲/۱۴۰} اے اہلِ کتاب تم ابراہیم کے بارے میں کیوں حجت کرتے ہو۔ توریت و انجیل تو اُن کے بعد نازل ہوئی ہیں۔ کیا سمجھتے نہیں{۳/۶۵}تم کیسے لوگ ہو جو ایسی باتوں میں بھی جھگڑتے ہو جن کے بارے میں کچھ جانتے ہو۔ اور ایسی باتوں میں بھی جن کو نہیں جانتے۔ یہ باتیں اللہ بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے{۳/۶۶} ابراہیم نہ یہودی تھے نہ عیسائی۔ وہ سیدھے سادے مسلم (اللہ کے آگے سرجھکانے والے) تھے اور وہ مشرک نہیں تھے{۳/۶۷}۔
یعقوب علیہ السلام کی موت کے وقت اس کے بیٹوں نے کہا ہم مسلمان ہیں
اور جب یعقوب کو موت آئی تو (اے نبی) تم وہاں موجود نہیں تھے۔ وہ اپنے بیٹوں سے پوچھنے لگے میرے بعد کس کی بندگی کرو گے۔ بولے ہم آپ کے اور آپ کے باپ دادا ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق کے پالنے والے(اللہ) کی بندگی کریں گے جو ایک معبود ہے۔ اور ہم مسلمان (اللہ کے فرمانبردار) ہیں{۲/۱۳۳}۔
مسلمان اور مومن کسی پیغمبر میں فرق نہیں کرتے اور تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں
اُن سے کہہ دو ہم اللہ پر ایمان (یقین) رکھتے ہیں اور اس کتاب پر جو ہم پر اتری ہے اور اُن صحیفوں پر بھی جو ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق و یعقوب اور اس کے نواسوں پر اُترے اور جو کتابیں موسیٰ اور عیسیٰ کو دی گئی تھیں اور اُن پر بھی جو دوسرے رسولوں کو اُن کے پالنے والے(اللہ) کی طرف سے ملی تھیں ایمان (یقین) رکھتے ہیں۔ ہم ان میں فرق نہیں کرتے۔ اور ہم صرف اللہ کی اِطاعت (بندگی) کرتے ہیں{۲/۱۳۶} نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کرلو یا مغرب کی طرف، نیکی یہ ہے کہ اللہ اور روزِ آخرت پر، فرشتوں پر، اللہ کی کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اپنا مال اللہ کی خوشنودی کے لئے رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں۔ غلاموں کو آزاد کرائیں، صلات قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور جب عہد کریں تو اُسے پورا کریں۔ تنگی ترشی اور جنگ میں ثابت قدم رہیں۔ وہی سچے مومن ہیں اور وہی اللہ سے محبت کرنے والے کہلائیں گے{۲/۱۷۷} کہو ہم اللہ پر ایمان (یقین) رکھتے ہیں اور اُس پر بھی جو ہم پر (قرآن) نازل ہوا ہے۔ اور جو ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق و یعقوب اور اُس کے نواسوں اور موسیٰ اور عیسیٰ اور اللہ کے دوسرے رسولوں پر اُترا تھا۔ اور اُن میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ ہم اُسی اللہ کو تسلیم کرنے والے (مسلمین) ہیں{۳/۸۴}۔
عیسیٰ علیہ السلام سے حواریوں نے کہا آپ گواہ رہیں ہم مسلمان ہیں
پھر جب عیسیٰ نے اُن میں نافرمانی دیکھی تو کہا اللہ کے واسطے میرا مددگار کون ہوتا ہے۔ تو حواریوں نے کہا ہم اللہ کے نام پر تمہارے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلم (اللہ کو تسلیم کرنے والے) ہیں{۳/۵۲}۔
اے اہل کتاب تم گواہ رہو ہم مسلمان کسی کو اللہ کا بیٹا، وسیلہ نہیں مانتے
کہو اے اہل کتاب آئو ہم اُن باتوں پر اتفاق کرلیں جو ہم میں اور تم میں مشترک ہیں کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں کریں گے۔ اللہ کا کسی کو شریک(اولیا، وسیلہ اور بیٹا) نہیںبنائیں گے اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا پالنے والا نہیں مانے گا۔ پھر اگر وہ نہیں مانیں تو کہو کہ گواہ رہیں کہ ہم سچے مسلم (اللہ کو تسلیم کرنے والے) ہیں{۳/۶۴}۔
فرعون کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کرنے والے جادوگر سجدے میں گر گئے اور دعا کی ’’ اے اللہ! جب ہم مریں تو مسلمان مریں‘‘۔
موسی نے کہا اے فرعون میں اللہ کا رسول ہوں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے{۷/۱۰۴} میں سچ کہتا ہوں اور اللہ کی طرف سچ کے سوا کچھ منسوب نہیں کرتا۔ میں تمہارے پالنے والے (اللہ) کی نشانیاں لایا ہوں۔ تم بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دو{۷/۱۰۵} فرعون نے کہا اچھا اپنی نشانیاں دکھائو اگر سچے ہو{۷/۱۰۶} موسیٰ نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی تو وہ سانپ کی طرح چلنے لگی{۷/۱۰۷} اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو لوگوں کو چمکتا دکھائی دیا{۷/۱۰۸} تب فرعون کے درباریوں نے کہا بلاشبہ یہ بڑا جادوگر ہے{۷/۱۰۹} غالباً یہ آپ کو یہاں سے نکالنا چاہتا ہے پھر آپ کا حکم کیا ہے{۷/۱۱۰} وہ بولا ابھی اسے اور اس کے بھائی کو رہنے دو اور اپنے آدمی شہروں میں بھیجو{۷/۱۱۱} تاکہ وہ ہمارے ماہر جادوگروں کو بلا لائیں{۷/۱۱۲} جب جادوگر فرعون کے پاس آئے تو بولے ہم کو یقینا انعام ملے گا اگر ہم جیت گئے{۷/۱۱۳} کہا ہاں تم کو درباری جادوگر بنایا جائے گا{۷/۱۱۴} انہوں نے پوچھا اے موسیٰ! تم اپنی چیزیں پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں{۷/۱۱۵} موسیٰ نے کہا تم پھینکو۔ تو جب انہوں نے اپنا جادو پھینکا وہ لوگوں کی نظروں میں ڈرائونی چیزیں بن گیا اور وہ بڑا جادو تھا{۷/۱۱۶} پھر ہم نے موسیٰ کو حکم دیا اب تم اپنی لاٹھی پھینکو تو وہ جادوگروں کی چیزوں کو کھانے لگی{۷/۱۱۷} اس طرح حق (سچ) جیت گیا اور انہوں نے جو کچھ کہا تھا جھوٹ ثابت ہوا{۷/۱۱۸} اور وہ ہار کر شرمندہ ہوگئے{۷/۱۱۹} اور تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے{۷/۱۲۰} اور بولے ہم تمام جہانوں کے پالنے والے (اللہ) پر ایمان (یقین) لائے{۷/۱۲۱} یعنی موسیٰ اور ہارون کے پالنے والے (اللہ) پر{۷/۱۲۲} تب فرعون نے کہا تم میری اجازت کے بغیر ایمان کیسے لائے۔ یہ تمہاری سازش ہے۔ تم نے ان سے مل کر یہ سازش کی ہے تاکہ ہم کو یہاں سے نکال دو۔ میں تم کو اس کا مزہ چکھائوں گا{۷/۱۲۳} میں تمہارے ہاتھ پائوں مخالف جانب سے کٹوائوں گا پھر تم سب کو سولی پر چڑھوائوں گا{۷/۱۲۴} انہوں نے کہا اب تو ہم اپنے پالنے والے (اللہ) سے رجوع کرچکے{۷/۱۲۵} اور آپ ہم سے کس گناہ کا انتقام لیں گے۔ صرف اس کا کہ ہم اپنے پالنے والے (اللہ) کی باتوں (حدیثوں) پر یقین لے آئے ہیں جو ہمارے پاس آئی ہیں۔ (پھر دُعا کی) اے پالنے والے (اللہ) ہمیں برداشت کی توفیق دے اور ہم مریں تو مسلم (اللہ کے آگے سرجھکانے والے) مریں{۷/۱۲۶}۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا اللہ پر بھروسہ کرو اگر سچے مسلمان بننا چاہتے ہو
اللہ سچائی کو اپنے کلام سے سچ کر دِکھاتا ہے خواہ منکروں کو برا ہی لگے{۱۰/۸۲} مگر موسیٰ پر کوئی ایمان (یقین) نہیں لایا۔ سوائے ان کی قوم کے چند نوجوانوں کے جو فرعون اور اس کی فوج سے ڈرتے تھے کہ کسی جرم میں نہ دھر لے۔ فرعون ملک میں جابر حاکم تھا وہ کسی قانون کا احترام نہیں کرتا تھا{۱۰/۸۳} موسیٰ نے کہا اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان (یقین) لائے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر سچے مسلم (اللہ کا فرمانبردار) بننا چاہتے ہو{۱۰/۸۴}۔
ڈوبتے وقت فرعون نے کلمہ پڑھا اور کہا میں مسلمان ہوں مگر…!
موسیٰ نے دعا کی اے مالک تو نے فرعون اور اس کی فوج کو دنیاوی زندگی کی دولت شوکت دی ہے۔ وہ لوگوں کو تیرے راستے سے بھٹکاتے ہیں اے پالنے والے(اللہ تو) ان کے مال و اسباب کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ ایمان (یقین) نہیں لاسکیں اور تیرے سخت عذاب کے مستحق ٹھہریں{۱۰/۸۸} ہم نے کہا تمہاری دعا قبول ہوئی۔ تم دونوں ثابت قدم رہو اور بے عقل لوگوں کی راہ پر نہیںچلنا{۱۰/۸۹} پھر ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار کروا دیا۔ فرعون ان کے پیچھے لشکر لے کر ڈورا۔ وہ غیظ و غضب سے کھول رہا تھا مگر جب اسے معلوم ہوا کہ ڈوب جائے گا تو چلایا میں ایمان لاتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی خدا (داتا)نہیں ہے۔ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں تسلیم کرنے والے (مسلمین) میں شامل ہوتا ہوں{۱۰/۹۰} (جواب ملا) پہلے نافرمانی کرتا رہا۔ اب ایمان لاتا ہے پاجی کہیں کے{۱۰/۹۱} آج ہم تیرا بدن بچالیں گے تاکہ آنے والوں کے لئے عبرت ہو کیونکہ بہت سے لوگ قدرت کی نشانیوں سے غافل رہتے ہیں{۱۰/۹۲}۔
اس بستی میں لوط علیہ السلام کے گھر کے سوا کوئی گھر مسلمانوں کا نہیں تھا
تو ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس (بیٹے کی) خوشخبری لے کر گئے اور کہا ہم اس بستی کو تباہ کردیں گے۔ وہاں کے باشندے ظالم ہیں{۲۹/۳۱} (ابراہیم) بولے وہاں تو لوط ہے۔ کہا وہاں جو بھی ہے ہمیں معلوم ہے۔ ہم اس (لوط) کو اور اس کے گھر والوں کو بچالیں گے مگر اس کی بیوی پیچھے رہ جائے گی{۲۹/۳۲} پھر وہاں جو اہلِ ایمان تھے ان کو بچالیا{۵۱/۳۵} اور وہاں ایک (لوط کے) گھر کے سوا کوئی گھر مسلمانوں کا نہیں تھا {۵۱/۳۶} اور وہاں (کھنڈرات بطور) ایک نشانی چھوڑ دئیے۔ ان کے لیے جو اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں{۵۱/۳۷}۔
پھر تم حق (سچائی) کو تسلیم کرنے والے (مسلمان) کیوں نہیں بن جاتے
(حق کے منکر) کہتے ہیں یہ سب من گھڑت باتیں (حدیثیں) ہیں۔ تم کہو کہ سچے ہو تو تم بھی ایسی دس سورتیں گھڑ لائو۔ اور اپنی مدد کے لئے ان کو بھی بلالو جن کو تم (مشکل کشا سمجھ کر) اللہ کی جگہ پکارتے ہو{۱۱/۱۳} پھر اگر وہ تمہاری مدد نہیں کرسکیں تو جان لو کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور یہ بھی کہ اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں۔ پھر تم حق (سچائی) کو تسلیم کرنے والے (مسلم) کیوں نہیں بن جاتے{۱۱/۱۴}۔
تمہارا خدا صرف اللہ ہے تو مسلمان بن جائو
(اے پیغمبر) ان سے کہو مجھ پر وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود (خدا) صرف اللہ ہے جو ایک ہے تو کیا تم مسلم (اللہ کے فرمانبردار) نہیں بنو گے{۲۱/۱۰۸}۔
حقیقت پسند اہل کتاب کہتے ہیں ہم پہلے ہی سے مسلمان ہیں
جن کو اس سے پہلے کتاب (توریت، زبور اور انجیل) ملی ہے وہ اس قرآن پر ایمان لے آتے ہیں{۲۸/۵۲} اور جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم ایمان لاتے ہیں بے شک یہ ہمارے پالنے والے (اللہ) کا سچا کلام ہے۔ ہم پہلے ہی سے مسلمان (اللہ کے فرمانبردار) ہیں (نہ کہ عیسائی یا یہودی){۲۸/۵۳}۔
اے اہلِ کتاب ہمارا اور تمہارا خدا ایک اللہ ہے ہم مسلم اسی کے فرمانبردار ہیں
اور تم اہلِ کتاب سے نہیں الجھو ان کو نرمی سے سمجھائو مگر وہ زیادتی کریں تو ان سے کہو جو کتاب ہم پر اُتری ہے اور جو کتابیں تم پر اُتری تھیں ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا خدا ایک (اللہ) ہے اور ہم اسی کی فرمانبرداری کرنے والے مسلم ہیں{۲۹/۴۶}۔
اللہ کا حکم ماننے والے مسلمانوں کو ہدایت اور بشارتیں ملتی ہیں
ان سے کہو یہ سچی باتیں ہیں جو پاک غیبی طاقت تمہارے پالنے والے (اللہ) کے پاس سے سچائی کے ساتھ لاتا ہے تاکہ اہلِ ایمان کا ایمان پختہ ہو ان کو ہدایت ملے اور اللہ کے آگے سرجھکانے والے (مسلمین) کو بشارتیں ملیں{۱۶/۱۰۲}۔
صرف مسلمان جنت میں جائیں گے
جو لوگ ہمارے کلام (حدیثو) پر ایمان لائے اور اللہ کے فرمانبردار (مسلمین) رہے{۴۳/۶۹} باعزت طور پر اپنی بیویوں کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائیں{۴۳/۷۰} ان پر سونے کے پیالوں اور جاموں کا دور چلے گا۔ جو ان کا جی چاہے گا اور جو ان کو آنکھوں کو بھلا لگے گا دیا جائے گا کہ تم یہاں ہمیشہ رہنے آئے ہو{۴۳/۷۱} یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے اچھے اعمال کے بدلے میں وارث ہوئے ہو{۴۳/۷۲}۔
نافرمان لوگ آرزو کریں گے کاش وہ بھی مسلمان ہوتے
لیکن جرائم پیشہ لوگ جہنم کے دائمی عذاب میں جائیں گے{۴۳/۷۴} جو ہلکا نہیں ہوگا اور وہ اس میں مایوس ہو کر پڑے رہیں گے{۴۳/۷۵} ہم ان پر ظلم نہیں کریں گے وہ خود پر ظلم کرتے رہے{۴۳/۷۶} وہاں پکاریں گے اے مالک (داروغۂ جہنم) اللہ سے کہو ہمارا فیصلہ کر دے (یعنی موت دیدے)۔ وہ کہے گا تمہیں یہاں ہمیشہ جینا ہے{۴۳/۷۷} تمہارے پاس سچائیاں بھیجی گئیں مگر تم میں اکثر کو سچ سے کراہت تھی{۴۳/۷۸} تم نے اپنے پالنے والے (اللہ) کا حکم نہیں مانا۔ اب تمہاری بات نہیں مانی جائے گی{۴۳/۷۹} اس دن نافرمان (کافر) آرزو کریں گے کاش وہ مسلم (اللہ کے فرمانبردار) ہوتے{۱۵/۲}۔
وَمَا عَلَیْْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ
اور ہمارے ذمہ صرف اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے{۳۶/۱۷}۔